گمراہ کرنے والے قائد
راوی:
وعن ثوبان قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إنما أخاف على أمتي الأئمة المضلين وإذا وضع السيف في أمتي لم يرفع عنهم إلى يوم القيامة . رواه أبو داود والترمذي . ( حسن )
حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔ حقیقت یہ ہے کہ میں اپنی امت کے حق میں جن لوگوں سے زیادہ ڈرتا ہوں وہ گمراہ کرنے والے امام ہیں ۔ یاد رکھو جب میری امت میں تلوار چل پڑے گی تو پھر قیامت تک نہیں رکے گی۔ ( ابوداؤد )
تشریح
" ائمہ " اصل میں امام کی جمع ہے اور امام قوم وجماعت کے سردار ، پیشوا اور اس شخص کو کہتے ہیں کہ جو لوگوں کو اپنے قول یا فعل یا عقیدے کی اتباع کی طرف بلائے ، پس اس ارشاد کا مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ مسلمانوں کی اجتماعی اور ملی حیثیت نیز ان کے دین کو سب سے زیادہ نقصان پہنچانے والی اور تباہی کی طرف لے جانے والی جو چیز ہے وہ مسلمانوں کی قیادت و رہبری اور پیشوائی کرنے والے لوگوں کا گمراہ ہونا ہے کیونکہ انفرادی حیثیت میں کسی بھی شخص کے گمراہ ہونے کا نقصان اسی کی ذات تک محدود رہتا ہے لیکن قائد و پیشوا کی گمراہی کا نقصان و ضرر پوری قوم وجماعت کو متاثر کرتا ہے۔
" جب میری امت میں تلوار چل پڑے گی الخ" کا مطلب یہ ہے کہ جب ایک دوسرے کے خلاف تلوار وطاقت آزمائی کی سیاست کی ابتداء ہو جائے گی اور باہمی مسائل ومعاملات کو افہام تفہیم اور دین ودیانت کی روشنی میں حل کرنے کی بجائے تشدد وخونریزی کے راستے کو اختیار کر لیا جائے گا تو پھر طاقت آزمائی اور تشدد و خونریزی کا وہ فتنہ قیامت تک ٹھنڈا نہیں ہوگا اور مسلمان کہیں نہ کہیں ایک دوسرے کے خلاف لڑتے رہیں گے۔ واضح رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس ارشاد گرامی کے ذریعے امت میں خونریزی کی اتبداء ہو جانے کے جس خوف کی طرف اشارہ فرمایا تھا اس کا مصداق امیرالمومنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے واقعہ شہادت کی صورت میں سامنے آیا۔چنانچہ اسلام میں سے پہلے مسلمان نے مسلمان کے خلاف جو تلوار اٹھائی اور خون بہایا وہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت ہے۔ اور پھر ان کے سانحہ شہادت کے بعد مسلمانوں میں باہمی خونریزی کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ آج تک باقی ہے جیسا کہ مخبر صادق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خبر دی ہے کہ مسلمانوں کی بدقسمتی سے یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔