آنے والے زمانوں کے بارے میں پیشگوئی
راوی:
وعن حذيفة قال قلت يا رسول الله أيكون بعد هذا الخير شر كما كان قبله شر ؟ قال نعم قلت فما العصمة ؟ قال السيف قلت وهل بعد السيف بقية ؟ قال نعم تكون إمارة على أقذاء وهدنة على دخن . قلت ثم ماذا ؟ قال ثم ينشأ دعاة الضلال فإن كان لله في الأرض خليفة جلد ظهرك وأخذ مالك فأطعه وإلا فمت وأنت عاض على جذل شجرة . قلت ثم ماذا ؟ قال ثم يخرج الدجال بعد ذلك معه نهر ونار فمن وقع في ناره وجب أجره وحط وزره ومن وقع في نهره وجب وزره وحظ أجره . قال قلت ثم ماذا ؟ قال ثم ينتج المهر فلا يركب حتى تقوم الساعة وفي رواية هدنة على دخن وجماعة على أقذاء . قلت يا رسول الله الهدنة على الدخن ما هي ؟ قال لا ترجع قلوب أقوام كما كانت عليه . قلت بعد هذا الخير شر ؟ قال فتنة عمياء صماء عليها دعاة على أبواب النار فإن مت يا حذيفة وأنت عاض على جذل خير لك من أن تتبع أحدا منهم . رواه أبو داود .
حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کیا اس خیر کے بعد شر پیدا ہوگا جیسا کہ اب سے پہلے شر کا دور دورہ تھا (یعنی جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے پہلے کفر و شرک اور برائیوں کا اندھیرا پھیلا ہوا تھا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور نبوت نے بدی وبرائی کی تاریکی کو ختم کر کے نیکی اور بھلائی کا اجالا پھیلایا، اسی طرح کیا خیر و بھلائی کے اس زمانے کے بعد شر و برائی کا زمانہ بھی آئے گا) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں (اس کے بعد پھر بدی وبرائی کا زمانہ بھی آئے گا) میں نے عرض کیا کہ پھر اس وقت بچنے کی کیا سبیل ہوگی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔ تلوار (یعنی اس فتنہ سے حفاظت، تلوار آزمائی کے ذریعے حاصل ہوگی یا یہ مراد ہے کہ اس فتنہ سے بچنے کا راستہ یہی ہوگا کہ تم اس فتنہ کو پیدا کرنے والے لوگوں کو سر تلوار سے اڑا دو) میں نے عرض کیا کہ پھر اس تلوار کے بعد اہل اسلام باقی رہیں (یعنی جب مسلمان بدی اور برائی کی طاقتوں کو ختم کرنے کے لئے تلوار اٹھائیں گے اور قتل وقتال کریں گے تو کیا اس کے بعد اس زمانے کے مسلمانوں میں اتنی طاقت واجتماعیت باقی رہ جائے گی کہ وہ امانت ودیانت کے ساتھ اپنی سرداری وحاکمیت قائم کر لیں اور لوگ اس کی قیادت وامارت پر اتفاق کر لیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ہاں! امارت یعنی حکومت وسلطنت تو قائم ہو جائے گی لیکن اس کی بنیاد فساد پر ہوگی اور صلح کی بنیاد کدورت پر ہوگی۔ میں نے عرض کیا کہ پھر اس کے بعد کیا ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس کے بعد گمراہی کی طرف بلانے والے لوگ پیدا ہوں گے ۔ اگر اس وقت زمین پر کوئی خلیفہ یعنی امیر وبادشاہ ہو تو خواہ وہ تیری پیٹھ پر مارے ہی کیوں نہ اور تیرا مال کیوں نہ لے لے (یعنی وہ امیر بادشاہ اگرچہ تمہیں ناحق ستائے تم پر ظلم وستم ڈھائے اور تمہارا مال واسباب چھین لے لیکن تم اس کی اطاعت سے منہ نہ پھیرنا تاوقتیکہ وہ تمہیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف کوئی کام کرنے کو نہ کہے اور حکم اس لئے دیا گیا ہے تاکہ دین وملت میں افتراق وانتشار اور مملکت میں بدامنی وفساد پیدا نہ ہو۔ اور اگر کوئی خلیفہ یعنی امیر وبادشاہ نہ ہو تو تمہاری موت ایسی حالت میں آنی چاہئے کہ تم کسی درخت کی جڑ میں پناہ پکڑے ہوئے ہو۔ میں نے عرض کیا کہ پھر اس کے بعد کیا ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ اس کے بعد دنیا اور زیادہ فتنہ وانتشار اور برائیوں کی طرف بڑھتی رہے گی اور مسلمان بتدریج دینی وملی طور پر اور دنیاوی اعتبار سے بھی زوال پذیر ہوتے رہیں گے، یہاں تک کہ حضرت مہدی کے زمانہ میں دجال کا ظہور ہوگا جس کے ساتھ پانی کی نہر ہوگی اور آگ کی خندق پس جو شخص اس کی نہر میں پڑے گا اس کا گناہ اس کے لئے باردوش بنے گا اور اس کا اجر جو اس نے اچھے عمل کر کے حاصل کئے ہوں گے جاتا رہے گا۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ پھر اس کے بعد کیا ہوگا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ گھوڑے کا بچہ جنوایا جائے گا اور وہ سواری نہیں دینے پائے گا کہ قیامت قائم ہو جائے گی۔
اور ایک روایت میں (امارت تو قائم ہو جائے گی لیکن اس کی بنیاد فساد پر ہوگی الخ) کے بجائے یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کدورت پر صلح ہوگی یعنی اس وقت لوگ ظاہر میں تو صلح صفائی کا راستہ اختیار کریں گے لیکن ان کے باطن میں کدورت ہوگی۔ اور وہ کسی معاہدہ وفیصلہ پر دلوں کی ناخوشی اور بخشش کے ساتھ متفق ومجتمع ہوں گے۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! کدورت پر صلح سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے دل اس حالت پر نہیں ہوں گے جس پر پہلے تھے (یعنی جس طرح اسلام کے ابتدائی زمانے میں لوگوں کے دل بغض وکینہ سے صاف رہا کرتے تھے ، وہ جو بات کہا کرتے یا جو معاملہ کرتے تھے اس میں صدق دلی شامل ہوتی تھی۔ اس طرح کے پاک وصاف دل اس وقت لوگوں کے نہیں ہوں گے کہ زبان سے کچھ کہیں گے معاملہ کچھ کریں گے اور دل میں کچھ اور رکھیں گے۔ یا یہ مراد ہے کہ لوگوں میں باہمی صلح وصفائی ہو جانے کے باوجود ، ان کے دل اس طرح پاک وصاف نہیں ہوں گے جس طرح ایک دوسرے کے خلاف بغض وعناد میں مبتلا ہونے اور کدورت پیدا ہونے سے پہلے تھے ۔ میں نے عرض کیا کہ کیا اس بھلائی کے بعد کہ جو آپس کے نفاق کدورت کے بعد مذکورہ باہمی مصالحت ومفاہمت کی صورت میں ظاہر ہوگی اور جو اگرچہ برائی کی آمیزش سے پوری طرح صاف نہیں ہوگی کسی اور برائی کا ظہور ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ہاں، اس کے بعد پھر برائی کا ظہور ہوگا اور وہ ایک ایسے بڑے فتنہ کی صورت میں ہوگا جو اندھا اور بہرا ہوگا (یعنی وہ فتنہ لوگوں کی عقل وخرد اور نیکی وبد کی قوت تمیز پر اس طرح اثر انداز ہو جائے کہ وہ حق اور سچائی کو نہ دیکھیں گے اور نہ سنیں گے ۔ گویا فتنہ کی طرف اندھے پن اور بہرے پن کی نسبت مجازاً ہے اصل مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ لوگ اس فتنہ میں مبتلا ہو کر بدی اور برائی کی انتہائی حدوں تک پہنچ جائیں گے، اور اس کا نتیجہ ، جیسا کہ آگے فرمایا جا رہا ہے، یہ ہوگا کہ اس فتنہ کی طرف بلانے والے لوگ پیدا ہو جائیں گے یعنی لوگ محض اس فتنہ میں مبتلا ہی نہیں ہوں گے بلکہ ایک ایسی جماعت بھی پیدا ہو جائے گی جو اس فتنہ کو ہوا دے گی اور دوسروں کے اس فتنہ میں مبتلا ہونے کا باعث بنے گی اور اس جماعت کے لوگوں کا یہ عمل ایسا ظاہر کرے گا جیسے کہ وہ دوزخ پر کھڑے ہو کر مخلوق کو اس دوزخ کی طرف بلا رہے ہیں چنانچہ بلانے والے اور ان کے بلاوے کو قبول کرنے والے سب ہی دوزخ میں جائیں گے۔ پس اے حذیفہ اس وقت تمہاری موت اگر اس حالت میں آئے کہ تم کسی درخت کی جڑ میں پناہ پکڑے ہوئے ہو تو یہ اس سے بہتر ہوگا کہ تم اہل فتنہ میں سے کسی کی اتباع وپیروی کرو۔
تشریح
قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس فتنہ سے بچاؤ کا ذریعہ تلوار کو قرار دیا تھا اس کا مصداق وہ لوگ ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ خلاف میں اسلام سے پھر گئے تھے اور اپنے ارتداد وبغاوت کے ذریعہ ایک بڑے فتنہ کا باعث بننے والے تھے لیکن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نہایت تدبر وہوشیاری کے ساتھ ان کی سرکوبی کی اور طاقت کے ذریعے ان کو دبایا۔
" اقذاء" اصل میں قذی کی جمع ہے اور قذاۃ کا معنی اس کیچڑ اور تنکے کے ہیں جو آنکھ میں یا پانی وشربت وغیرہ میں پڑ جائے۔ پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اس وقت امارت وحکومت تو قائم ہو جائے گی اور مسلمانوں کا امیر و خلیفہ بھی ہوگا لیکن لوگ اخلاص وحسن نیت کے ساتھ اپنی اس امارت وحکومت کے تئیں وفاداری نہ رکھیں گے بلکہ ان کے دلوں میں بغض وعداوت، عدم وفاداری اور مخالفت ومخاصمت کے جذبات ہوں گے ، جیسا کہ اگر کسی کی آنکھ میں کوئی ریزہ یا تنکا پڑ جائے تو گو وہ باہر سے اچھی بچھی معلوم ہوتی ہو مگر اس کے اندر سخت شوزش اور دکھن ہوتی ہے اسی طرح وہ لوگ گو ظاہر میں اپنی امارت وحکومت کے وفادار و بہی خواہ نظر آئیں گے مگر ان کے اندر غیر وفاداری اور مخالفت وعداوت بھری ہوگی، اور قاضی نے اس کے دوسرے معنی بیان کئے ہیں اور وہ یہ کہ اس وقت مسلمانوں کی حکومت وامارت تو قائم ہوگی لیکن وہ امارت وحکومت، بعض بدعتوں اور دین مخالف کاروائیوں کے ذریعے اپنی حیثیت کو بگاڑے رکھے گی۔
" ہدنۃ" مصالحت کے مفہوم میں ہے اور اصل میں اس کے معنی سکون و آرام اور فراغت کے ہیں اور دخن دخان کے مفہوم میں ہے جس کے معنی ہیں " دھواں" اس جملے " ہدنۃ علی دخن" (صلح کی بنیاد کدور پر ہوگی) کا مطلب بھی وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا کہ اس وقت باہم مخاصمت ومخالفت رکھنے والے فریقوں کے درمیان جو مصالحت ہوگی وہ فریب ونفاق اور بد نیتی کے ساتھ ہوگی کہ اس اعتبار سے یہ جملہ ماقبل کے جملہ کو مؤ کدہ کرنے کے لئے ہے ۔ اور شارحین حدیث نے بیان کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد گرامی کا مصداق وہ مصالحت ومفاہمت ہے جو حضرت امام حسن اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہما کے سپرد کر دی تھی اور انہوں نے یعنی امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی امرت وسیادت کو مستحکم کر لیا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ بعض حضرات خصوصا مورخین نے جو یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ امیر معاویہ ، حضرت امام حسن سے صلح وصفائی کر لینے کے بعد خلیفہ ہوئے تھے۔ اس معنی میں صحیح نہیں ہے کہ امام حسن واقعۃ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلافت کا اپنے سے زیادہ مستحق واہل جانتے تھے اس لئے انہوں نے صلح کر کے ان کے حق میں خلاف سے دستبرداری دے دی تھی، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت کے سیاسی عناصر نے حضرت امام حسن کے خلاف جس طرح کا ماحول بنا دیا تھا اور ان دونوں عظیم المرتبت شخصیتوں کی باہمی آویزش کی وجہ سے دین وملت کو جو نقصان پہنچنے والا تھا، حضرت امام موصوف نے اس سے بچنے کے لئے بادل نخواستہ مصالحت کی اور اپنی خلافت وحکومت کو دین وملت کے وسیع تر مفاد پر ترجیح دینے کی بجائے اس سے دستبرداری ہی کو بہتر سمجھا۔
" گمراہی کی طرف بلانے والے لوگ پیدا ہوں گے" کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کے امراء اور ارباب حکومت میں سے ایسے لوگوں کی جماعت پیدا ہوگی جو لوگوں کو بدعت و گناہ کی طرف مائل کرے گی اور برائی کے راستے پر لگائے گی۔
" کسی درخت کی جڑ میں پناہ پکڑے ہوئے ہو " کے ذریعے اس امر کی تلقین کرنا مقصود ہے کہ اپنے نازک حالات اور اس طرح کے سخت دین مخالف ماحول میں تمہیں چاہئے کہ لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کر کے کہیں گوشہ نشین ہو جاؤ اور اپنے آپ کو فتنہ وفساد سے بچا کر اپنی باقی زندگی کو کسی ایسی جگہ گزار دو جہاں تک اس فتنہ کے برے اثرات تم تک نہ پہنچ سکیں یہاں تک کہ اگر تمہیں ان نازک حالات اور اس پر فتن ماحول سے دور رہنے کے لئے کہیں دور جنگل میں جا کر کسی درخت کی جڑ میں پناہ لینی پڑے اور وہاں اتنی سخت اور صبر آزما زندگی گزارنی پڑے کہ گھاس پھوس اور لکڑی چبانے تک کی نوبت آ جائے تو اس سے بھی دریغ نہ کرو۔ اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ والا فمت کا تعلق واطعہ سے ہے، اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ اس امیر وبادشاہ کی طرف سے تمہارے حق میں کتنے ہی سخت حالات پیدا کر دئیے جائیں تم اس کی اطاعت و فرمانبرداری سے منہ نہ پھیرنا، کیونکہ اگر تم اس امیر وبادشاہ کی اطاعت نہیں کرو گے تو پھر تمہیں اور زیادہ شدید حالات میں اور کہیں زیادہ سخت اذیت کے ساتھ مرنا پڑے گا۔ نیز بعض نسخوں میں فمت کی بجائے قمت کا لفظ ہے جو لفظ قیام سے ماضی کا صیغہ ہے، اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ اگر ایسا نہ ہو یعنی تم اس امیر وبادشاہ کے ظلم وستم کی وجہ سے اس کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے سے معذور ہو تو پھر نکل کھڑے ہو اور کہیں دور جنگل میں جا کر کسی درخت کی جڑ میں پناہ لے لو۔ (یعنی اس امیر وبادشاہ کے زیر حکومت علاقہ سے نکل جاؤ اور کہیں دوسری جگہ جا کر پناہ گزیں ہو جاؤ۔
" جس کے ساتھ پانی کی نہر ہوگی اور آگ کی خندق " کے بارے میں بعض حضرات نے کہا ہے کہ یہ دونوں چیزیں حقیقی نہیں بلکہ محض خیالی ہوں گی اور ان کا تعلق سحر و طلسم سے ہوگا یعنی بظاہر نظر تو ایسا آئے گا کہ وہ دجال اپنے ساتھ پانی کی نہر اور آگ کی خندق لئے پھر رہا ہے لیکن حقیقت ان کے علاوہ کچھ اور ہوگی، جیسا کہ شعبدہ باز نظر بندی کر کے کچھ کا کچھ دکھا دیتے ہیں، چنانچہ آگے کی عبارت فمن وقع فی فارۃ میں دجال کی طرف آگ کی نسبت سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ دونوں چیزیں محض جادوئی اور طلسماتی ہوں گی۔ اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ اس کے ساتھ پانی کی جو نہر ہوگی وہ نتیجہ وحقیقت کے اعتبار سے آگ ہوگی اور آگ کی خندق ہوگی وہ نتیجہ وحقیقت کے اعتبار سے پانی ثابت ہوگا۔ اور حضرت شیخ عبدالحق نے اس جملے کی تشریح میں یہ لکھا ہے کہ زیادہ صحیح بات تو یہی ہے کہ یہ عبارت حقیقی معنی پر محمول ہے، یعنی اس کے ساتھ واقعۃ پانی کی نہر اور آگ کی خندق ہوگی، لیکن یہ احتمال بھی ہے کہ ان چیزوں سے مراد لطف وقہر اور وعدہ وعید ہو، یعنی پانی کی نہر سے مراد تو یہ ہے کہ اس کے پاس اپنے متعلقین کے لئے زبردست ترغیبات و لالچ اور آسائش و راحت کے سامان ہوں گے اور آگ کی خندق سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنے مخالفین ومنکرین کے لئے ڈرانے ، دھمکانے اور مصیبت واذیت میں مبتلا کرنے کے ذرائع رکھے گا،" پس جو شخص اس کی آگ میں پڑے گا الخ" کا مطلب یہ ہے کہ دجال کی موافقت وتابعداری نہیں کرے گا وہ اس کو آگ میں ڈالے گا اور طرح طرح کی سختیوں اور آلام میں مبتلا کرے گا) اور جو شخص اس کی آگ میں پڑے گا وہ اللہ کے دین پر ثابت قدم رہنے اور اللہ کی رضاء کی خاطر ہر مصیبت پر صبر کرنے کی وجہ سے بڑے بڑے اجر پائے گا اور اس نے پہلے جو گناہ کئے ہوں گے وہ دھل جائیں گے، اسی طرح جو شخص دجال کی موافقت وتابعداری کرے گا اس کو وہ اپنی میں ڈالے گا (یعنی اس کو طرح طرح کی آسائش اور راحت زیادہ سے زیادہ دنیاوی فائدے پہنچائے گا، چنانچہ جو شخص اس کے پانی میں جائے گا وہ دنیاوی آسائش وراحت اور یہاں کی زندگانی کی محبت کے سبب اس پر ایمان لانے ، اس کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے کی وجہ سخت وبال مول لے لے گا اور اس نے پہلے جو اچھے کام کئے ہوں گے ان سب کا اجر ضائع ہو جائے گا۔
" ثم ینتج المہر الخ" میں لفظ ینتج انتج کا صیغہ مجہول ہے نہ کہ یہ انتاج سے ہے اور نتج کے معنی ہیں حاملہ کی خبر گیری کرنا یہاں تک کہ وہ جنے۔ جب کہ انتاج کے معنی ہیں ولادت کا وقت آ جانا۔ پس علماء نے لکھا ہے کہ یہاں نتج اصل میں تولید کے معنی استعمال ہوا ہے یعنی لوگ اپنی گھوڑیوں کے ہاں بچہ ہونے کی تدابیر اختیار کریں گے اور بچہ جننے کے وقت گھوڑیوں کی دیکھ بھال اور خدمت کریں گے جیسا کہ دایہ کسی عورت کے ہاں ولادت کے وقت خدمت انجام دیتی ہے اور " مہر" کے معنی بچھڑنے کے ہیں اور اگر یہ لفظ " ۃ" کے ساتھ یعنی " مہرۃ" ہو تو اس کے معنی بچھڑی کے ہوتے ہیں۔ نیز " یرکب" کے معنی ہیں سواری دینے کی عمر کو پہنچ جانا یا سواری کے قابل ہو جانا۔ بہرحال جو یہ فرمایا گیا ہے کہ لوگ اپنی گھوڑیوں سے بچے جنوانے کی تدابیر کریں گے تاکہ ان کو سواری کے کام میں لا سکیں لیکن جب ان کی گھوڑیاں بچے جنیں گی تو وہ بچے ابھی سواری کے قابل بھی نہیں ہونے پائیں گے کہ قیامت آ جائے گی، تو اس سے مراد حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانے کی طرف اشارہ کرنا ہے، کیونکہ حضرت عیسی علیہ السلام کے نزول سے قیامت کے دن تک گھوڑوں کی سواری کا موقع ہی نہیں آئے گا اور یہ اس وجہ سے ہوگا کہ اس زمانے میں کفار کا وجود ہی نہیں ہوگا کہ جن سے جنگ کرنے کے لئے گھوڑوں کی سواری کی ضرورت پیش آئے لیکن یہ مراد لینا اور مذکورہ تاویل کرنا اس زمانے تو صحیح تھا جب کہ گھوڑوں کی سوار صرف میدان جنگ تک محدود رہتی تھی اور گھوڑے کا اصل مصرف کفار کے مقابلے پر لڑنے کے لئے ان کو استعمال کرنا سمجھا جاتا تھا ، ظاہر ہے کہ موجودہ حالت میں یہ بات کچھ زیادہ وزن دار معلوم نہیں ہوتی۔ یا اس جملے کے ذریعے اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ دجال کے ظاہر ہو جانے کے بعد سے قیامت آنے تک کا زمانہ طویل نہیں ہوگا، بہت مختصر ہوگا، گویا اس وقت سے قیامت آنے تک میں بس اتنا عرصہ رہ جائے گا ایک بچھڑے کے پیدا ہونے کے وقت سے اس سواری کے قابل ہونے تک کے درمیان لگتا ہے۔ یہ وضاحت نہ صرف یہ کہ زیادہ صاف اور قرین قیاس ہے بلکہ ان احادیث کے مفہوم کے مطابق بھی ہے جو اس سلسلے میں منقول ہیں۔