زمانہ نبوی کے بعد عرب میں ظہور پذیر ہونے والے فتنہ کی پیشین گوئی
راوی:
وعن أبي هريرة أن النبي صلى الله عليه وسلم قال ويل للعرب من شر قد اقترب أفلح من كف يده . رواه أبو داود .
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ افسوس اور بدنصیبی عرب کی کہ برائی کے فتنے کا ظاہر ہونا قریب آ گیا، اس فتنہ میں وہی شخص نجات یافتہ اور فلاح یاب رہے گا جس نے اپنا ہاتھ روکے رکھا۔ (ابو داؤد)
تشریح
طیبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس ارشاد گرامی کے ذریعے عرب کے اس فتنہ کی طرف اشارہ فرمایا جو حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت میں پیش آیا اور جس نے مسلمانوں کے باہمی افتراق وانتشار، خروج و بغاوت اور بدامنی وخانہ جنگی کی صورت میں نہ صرف حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جام شہادت نوش کرنے پر مجبور کیا بلکہ اس کا سلسلہ بعد میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہم کی آویزش کی صورت میں بہت دنوں تک جاری رہا اور اسلام اور مسلمانوں کو کافی نقصانات برداشت کرنا پڑے ۔ لیکن ملا علی قاری کا کہنا یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد گرامی کا مصداق حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلاف یزید بن معاویہ کی وہ کار روائی ہے جس کے نتیجے میں امام عالی مقام کربلا کے میدان میں شہید ہوئے۔ معنی کے اعتبار سے یہ قول زیادہ صحیح اور حدیث کے قریب تر ہے کیونکہ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کا سانحہ ایک ایسا فتنہ تھا جس کی برائی میں عرب وعجم میں سے کسی کو بھی کوئی شک وشبہ نہیں۔