جنگ جمل
راوی:
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد مدینہ میں قاتلین عثمان اور بلوائیوں ہی کا دور دورہ تھا اس لئے سب سے پہلے انہوں نے اہل مدینہ کو ڈرا دھمکا کر انتخاب خلیفہ کے کام پر آمادہ کیا ، عبداللہ بن سبا نے چونکہ اپنی پوری سازش اور تحریک میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نام اچھالا تھا اور ان ہی کو خلافت قائم کرنے کے نام پر لوگوں کو اپنے گرد جمع کیا تھا اس لئے قدرتی طور پر بلوائیوں کی کثرت حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ منتخب کرنے کی حامی تھی۔ اگرچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت سے پہلے ہی خلافت کے باغیوں سے اپنے تعلق کا انکار کیا تھا اور ان کی مدد کی درخواست کو ٹھکرا دیا تھا لیکن جب بلوائیوں نے ان سے اصرار کیا ادھر انہوں نے اہل مدینہ کی بھی کثرت آراء اپنے بارے میں دیکھی تو وہ خلافت کا بار سنبھالنے کے لئے تیار ہو گئے، تاہم جب لوگ بیعت کے لئے ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے صفائی سے کہہ دیا کہ جب تک اصحاب بدر مجھ کو خلیفہ نہ تسلیم کر لیں میں بیعت نہیں لوں گا ، یہ سن کر ان لوگوں نے جہاں تک ممکن ہو سکا اصحاب بدر کو جمع کر کے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لائے اور اس طرح ان کے ہاتھ پر خلافت کی بیعت ہوئی ۔ خلیفہ بننے کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو سب سے پہلے جس مطالبے کا سامنا کرنا پڑا وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قصاص کا تھا۔ انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ سے قاتلوں کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے صرف دو اشخاص کا حلیہ بتایا لیکن ان کا نام نہ بتا سکیں ۔ ظاہر ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بلا تشخص وتعین اور ثبوت فراہم ہوئے بغیر قاتلین عثمان کو سزا کیسے دے سکتے تھے۔ اس لئے قصاص کے مطالبہ کو تسلیم کرنے میں رکاوٹ پیدا ہو گئی جب لوگوں نے بالخصوص حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہما نے صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اس مطالبہ پر اصرار کیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں قاتلین عثمان سے قصاص ضرور لوں گا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے معاملے میں پورا پورا انصاف کروں گا لیکن ابھی تک بلوائیوں کا زور ہے اور ادھر خلافت کا زور پوری طرح مستحکم نہیں ہوا ہے اس لئے فی الحال میں اس معاملے میں کچھ نہیں کر سکتا، اطمینان اور استحکام حاصل ہونے کے بعد سب سے پہلے اسی معاملے کی طرف توجہ کروں گا۔ بس اسی جگہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف بدگمانی کی فضا پیدا ہونا شروع ہوگئی ، مسلمانوں بالخصوص بنو امیہ کے لوگوں کو یقین ہو گیا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کا بدلہ نہیں لیا جائے گا اور قاتلان عثمان مزے اڑاتے پھریں گے، ادھر سبائیوں نے اس خوف سے کہ کہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ قتل عثمان کے بدلے میں ہمیں یہ سزا نہ دینے لگیں ، اپنی سازش میں لگ گئے اور کوشش کرنے لگے کہ خلافت کو استحکام نصیب نہ ہو اور تمام مسلمان ایک دوسرے کے خلاف بدگمانی اور عداوت میں مبتلا ہو جائیں۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حج کے لئے مکہ تشریف لے گئی تھیں وہاں سے مدینہ واپس آ رہی تھیں کہ راستے میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کا سانحہ سن کر پھر مکہ لوٹ آئیں ان کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کی خبر بھی ملی ساتھ ہی انہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ قاتلان عثمان کو سزا دینے میں تامل کر رہے ہیں، چنانچہ وہ مکہ آئیں اور لوگوں کو ان کی اس طرح واپسی کا حال معلوم ہوا تو وہ آ کر ان کی سواری کے گرد جمع ہو گئے انہوں نے مجمع کے روبرو تقریر کرتے ہوئے اعلان کیا کہ میں خود خون عثمان کا بدلہ لونگی۔ بنو امیہ کے تمام لوگوں اور مکہ کے عثمانی گورنر نے ان کی حمایت کا اعلان کیا۔ حضرت طلحہ ، حضرت زبیر رضی اللہ عنہما مدینہ سے مکہ آئے تو وہ دونوں بھی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ ہو گئے، کچھ عرصہ تیاریوں میں لگا اور پھر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے تمام حامیوں کو لے کر بصرہ روانہ ہوئیں تاکہ وہان سے فوجی امداد لے کر آگے کی کاروائی شروع کریں راستے میں کچھ لوگ ان سے جدا بھی ہو گئے ۔خود حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک مقام پر یہ ارادہ کر لیا کہ اپنے ارادہ سے باز آ کر واپس ہو جائیں مگر مسلمانوں کو باہم محاذ آرا کرنے پر ساشیوں کے جو لوگ متعین تھے انہوں نے کچھ ایسے حالات پیدا کر دئیے کہ کارواں کو پھر آگے بڑھنا پڑا، بصڑہ کے قریب پہنچ کر ام المومنین خیمہ زن ہو گیں ، گو امیر بصرہ نے ان کی مدد کرنے سے انکار کیا مگر عام لوگوں نے ان کی حمایت کی اور ان کے لشکر میں شامل ہو گئے ، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنا وہ لشکر لے کر مقام امربد تک آپہنچیں ، اس کے بعد امیر بصرہ بھی اپنا لشکر لے کر وہاں آ گیا اور دونوں لشکر ایک دوسرے کے سامنے صف آرا ہو گئے ، دونوں کے درمیان جنگ ہوئی اور گورنر بصرہ کی فوج شکست کھا کر بھاگ کھڑی ہوئی اور ام المومنین وغیرہ کا بصرہ پر قبضہ ہو گیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جب یہ صورت حال معلوم ہوئی تو وہ ایک بڑا لشکر لے کر بصڑہ روانہ ہوئے ادھر بعض دور اندیش اور صاحب بصیرت حضرات کی طرف سے ام المومنین اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے درمیان مصالحت کرانے کی کوشش ہونے لگی چونکہ ام المومنین اور حضرت علی رضی اللہ عنہ دونوں کے قلوب صاف تھے، اور دونوں ہی اس باہی محاذ آرائی پر سخت دل گرفتہ تھے، اس لئے جب مصالحین نے دونوں کے دلوں سے ایک دوسرے کے خلاف بدگمانیاں دور کرا کے باہمی صلح وصفائی کا میدان ہموار کر لیا اور مصالحت یقین ہو گئی تو عین موقع پر عبداللہ بن سبا جو اپنے ساتھیوں کی ایک بڑی جماعت کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں موجود تھا اپنی پرانی یہودی سازش کے تحت متحرک ہو گیا اور جس دن صلح نامہ پر دستخط ہونے والے تھے اس کی صبح سپیدہ سحر نمودار ہونے سے پہلے سپاہیوں نے اچانک ام المومنین کے لشکر پر حملہ کر دیا اور اس طرح دونوں طرف کی فوجیں اس بدگمانی میں پڑ کر کہ فریق مخالف نے مصالحت کی کوشش ٹھکرا کر جنگ کرنے کا ارادہ کر لیا ہے، باہم برسر پیکار ہو گئیں، ام المومنین نے اس موقع پر بھی جنگ رکوانے کی کوشش کی اور اس مقصد کے لئے اونٹ پر ہودج میں بیٹھ کر میدان جنگ میں آئیں لیکن چونکہ دونوں طرف کے جذبات بھڑک اٹھے تھے اس لئے میدان جنگ میں ان کی بہ نفس نفیس آمد دونوں طرف سے جنگ کے شعلے کو بھڑکانے کا مزید سبب بن گئی جم کر لڑائی ہوئی اور جنگ کا سارا زور حضرت ام المومنین کے اونٹ کے ارگرد رہا، اسی مناسبت سے اس جنگ کو جنگ جمل یعنی اونٹ کی لڑائی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ سازشیوں کی سازش لوگوں کو بھڑکاتی رہی اور مسلمانوں کی تلوار اپنے ہی بھائیوں کا گلا کاٹنے میں مصروف رہی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آخری طور پر جنگ بند کرانے کی ایک اور کوشش کی لیکن عبداللہ بن سبا کے لوگوں کی وجہ سے وہ کوشش بھی ناکام ہو گئی ۔ ام المومنین کا اونٹ لڑائی اور کشت وخون کا مرکز بنا ہوا تھا ۔ چاروں طرف سے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے کجاوہ پر تیروں کی بارش ہو رہی تھی، اہل بصرہ پوری جان نثاری کے ساتھ ان تیروں کو اپنے اوپر لے جا رہے تھے اور اونٹ کے چاروں طرف لاشوں کے انبار لگ گئے ، آخرش حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر والوں نے ایک زور کا دھاوا بولا اور ایک شخص نے موقع پا کر اونٹ کے پاؤں میں تلوار ماری اور چلا کر سینہ کے بل بیٹھ گیا اونٹ کے گرتے ہی اہل بصرہ منتشر ہو گئے اور جنگ ختم ہو گئی ۔ اس جنگ میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طرف سے لڑنے والوں کی تعداد تیس ہزار تھی جن میں سے نو ہزار آدمی میدان جنگ میں کام آئے۔ اس کے بعد اگلے دن حضرت علی رضی اللہ عنہ بصرہ میں داخل ہوئے تمام اہل شہر نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی اور بعد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ام المومنین کو پورے ادب واحترام کے ساتھ بصرہ سے روانہ فرمایا اور طرفین کے درمیان ہر طرح صلح وصفائی ہو گئی۔ یہ واقعہ ٣٦ھ کے وسط پیش آیا اور یہ یہودیوں کی گھناؤ نی سازش کا دوسرا حملہ تھا جس سے اہل اسلام کو زبردست دھچکا لگا اور مسلمانوں کو سخت نقصان اٹھانا پڑا۔