قیامت کی علامتیں
راوی:
وعن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا اتخذ الفيء دولا والأمانة مغنما والزكاة مغرما وتعلم لغير الدين وأطاع الرجل امرأته وعق أمه وأدنى صديقه وأقصى أباه وظهرت الأصوات في المساجد وساد القبيلة فاسقهم وكان زعيم القوم أرذلهم وأكرم الرجل مخافه شره وظهرت القينات والمعازف وشربت الخمور ولعن آخر هذه الأمة أولها فارتقبوا عند ذلك ريحا حمراء وزلزلة وخسفا ومسخا وقذفا وآيات تتابع كنظام قطع سلكه فتتابع . رواه الترمذي .
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ " جب مالم غنیمت کو دولت قرار دیا جانے لگے ، اور جب زکوۃ کو تاوان سمجھا جانے لگے، اور جب علم کو دین کے علاوہ کسی اور غر ض سے سکھایا جانے لگے اور جب مرد بیوی کی اطاعت کرنے لگے اور جب ماں کی نافرمانی کی جانے لگے، اور جب دوستوں کو تو قریب اور باپ کو دور کیا جانے لگے اور جب مسجد میں شور وغل مچایا جانے لگے اور جب قوم وجماعت کی سرداری، اس قوم وجماعت کے فاسق شخص کرنے لگیں اور جب قوم وجماعت کے زعیم وسربراہ اس قوم وجماعت کے کمینہ اور رذیل شخص ہونے لگیں اور جب آدمی کی تعظیم اس کے شر اور فتنہ کے ڈر سے کی جانے لگے اور جب لوگوں میں گانے والیوں اور ساز و باجوں کا دور دورہ ہو جائے اور جب شرابیں پی جانی لگیں اور جب اس امت کے پچھلے لوگ اگلے لوگوں کو برا کہنے لگیں اور ان پر لعنت بھیجنے لگیں تو اس وقت تم ان چیزوں کے جلدی ظاہر ہونے کا انتظار کرو سرخ یعنی تیز وتند اور شدید ترین طوفانی آندھی کا زلزلہ کا، زمین میں دھنس جانے کا ، صورتوں کے مسخ وتبدیل ہو جانے کا، اور پتھروں کے برسنے کا ، نیز ان چیزوں کے علاوہ قیامت اور تمام نشانیوں اور علامتوں کا انتظار کرو، جو اس طرح پے درپے وقوع پذیر ہوں گی جیسے ( مثلا موتیوں کی ) لڑی کا دھاگہ ٹوٹ جائے اور اس کے دانے پے درپے گرنے لگیں ۔ " (ترمذی )
تشریح
اس حدیث میں کچھ ان برائیوں کا ذکر کیا گیا ہے جو اگرچہ دنیا میں ہمیشہ موجود رہی ہیں اور کوئی بھی زمانہ ان برائیوں سے خالی نہیں رہا ہے، لیکن جب معاشرہ میں یہ برائیاں کثرت سے پھیل جائیں اور غیر معمولی طور پر ان کا دور دورہ ہو جائے تو سمجھ لینا چاہئے کہ اللہ کا سخت ترین عذاب خواہ وہ کسی شکل وصورت میں ہو، اس معاشرہ پر نازل ہونے والا اور دنیا کے خاتمہ کا وقت قریب تر ہو گیا ہے ۔
دول اصل میں دولۃ یا دولۃ کی جمع ہے جس کے لغوی معنی انقلاب زمانہ کے ہیں اور ہر اس چیز کو بھی " دولت " کہتے ہیں جو کبھی کسی کے لئے ہو اور کبھی کسی کے لئے اسی وجہ سے اس لفظ کا مال و زر اور حلیہ واقتدار پر ہوتا ہے ! نیز بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ لفظ دولۃ (دال کے پیش کے ساتھ ) تو اس چیز کا اسم ہے جو از قسم مال کسی شئ کو حاصل کرے یعنی مال غنیمت اور دال کے زبر کے ساتھ یعنی دولۃ کے معنی ہیں ایک حال سے دوسرے حال کی طرف پلٹنا یعنی سختی وپریشانی اور تنگدستی کی حالت کا ختم ہو جانا اور اطمینان و راحت اور خوشحالی کا آجانا بہر حال مال غنیمت کو دولت قرار دئیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ جہاد کے ذریعہ دشمنوں سے جو مال حاصل ہوتا ہے اور جس کو " مال غنیمت " کہا جاتا ہے وہ شرعی طور پر تمام غازیوں اور مجاہدوں کا مشترک حق ہے اور اس مال کو ان تمام حقداروں پر، خواہ وہ کسی بھی حیثیت وحالت کے ہوں، تقیسم کرنا واجب ہے، لیکن اگر اسلامی لشکر وسلطنت کے اہل طاقت و ثروت اور اونچے عہدے دار اس مال غنیمت کو شرع حکم کے مطابق تمام حقداروں کو تقسیم کرنے کے بجائے خود اپنے درمیان تقسیم کر کے بیٹھ جائیں اور محتاج وضرورت مند اور چھوٹے لوگوں کو اس مال سے محروم رکھ کر اس کو صرف اپنے مصرف میں خرچ کرنے لگیں تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ اس مال غنیمت کے تمام حقداروں کا مشترکہ حق نہیں سمجھتے بلکہ اپنی ذاتی دولت سمجھتے ہیں ۔
" امانت کو مال غنیمت شمار کرنے " سے مراد یہ ہے کہ جن لوگوں کے پاس امانتیں محفوظ کرائی جائیں وہ ان امانتوں میں خیانت کرنے لگیں اور امانت کے مال کو غنیمت کی طرح اپنا ذاتی حق سمجھنے لگیں جو دشمنوں سے حاصل ہوتا ہے ۔
" زکوۃ کو تاوان سمجھنے " کا مطلب یہ ہے کہ زکوۃ کا ادا کرنا لوگوں پر اس طرح شاق اور بھاری گذرنے لگے کہ گویا ان سے ان کا مال زبردستی چھینا جارہا ہے اور جیسے کوئی شخص تاوان اور جرمانہ کرتے وقت سخت تنگی اور بوجھ محسوس کرتا ہے ۔
علم کو دین کے علاوہ کسی اور غرض سے سکھانے کا مطلب یہ ہے کہ علم سکھائے اور علم پھیلانے کا اصل مقصد دین و شریعت پر عمل اور اخلاق و کردار کی اصلاح و تہذیب انسانیت اور سماج کی فلاح وبہبود اور اللہ ورسول کا قرب وخوشنودی حاصل کرنا نہ ہو بلکہ اس گے ذریعہ دنیا کی عزت، مال و دولت ، جاہ منصب اور ایوان اقتدار میں تقرب حاصل کرنا مقصود ہو ۔
" مرد کا بیوی کی اطاعت کرنا " یہ ہے کہ خاوند ، زن مرید ہو جائے اور اس طرح بیوی کا حکم مانے اور اس کی ہر ضرورت پوری کرنے لگے کہ اس کی وجہ سے اللہ کے حکم وہدایت کی صریح خلاف ورزی ہو ۔
" ماں کی نافرمانی کرنے " سے مراد یہ ہے کہ ماں کی اطاعت و فرما نبرداری کا جو حق ہے اس سے لا پرواہ ہو جائے اور کسی شرعی وجہ کے بغیر اس کی نافرمانی کر کے اس کا دل دکھائے واضح رہے کہ یہاں صرف ماں کی تخصیص اس اعتبار سے ہے کہ اولاد کے لئے چونکہ باپ کی بہ نسبت ماں زیادہ مشقت اور تکلیف برداشت کرتی ہے اس لئے وہ اولاد پر باپ سے زیادہ حق رکھتی ہے ۔
" دوستوں کو قریب اور باپ کو دور کرنے " کا مطلب یہ ہے کہ اپنا وقت باپ کی خدمت میں حاضر رہنے ، اس کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور اس کی دیکھ بھال میں صرف کرنے کے بجائے دوستوں کے ساتھ مجلس بازی کرنے ، ان کے ساتھ گپ شپ اور سیر و تفریح کرنے میں صرف کرے اور اپنے معمولات وحرکات سے ایسا ظاہر کرے کہ اس کو باپ سے زیادہ دوستوں کے ساتھ تعلق وموانست ہے ۔
" مسجد میں شور و غل کرنے " سے مراد یہ ہے کہ مسجدوں میں زور زور سے باتیں کی جائیں، چیخ وپکار کے ذریعہ مسجد کے سکون میں خلل ڈالا جائے اور اس کے ادب واحترام سے لا پرواہی برتی جائے ! واضح رہے کہ بعض علماء نے یہاں تک لکھا ہے کہ مسجد میں آواز کو بلند کرنا حرام ہے، خواہ اس کا تعلق ذکر اللہ سے کیوں نہ ہو ۔
" کسی قوم وجماعت کا سردار اس قوم کے فاسق ہونے ۔ " سے مراد یہ ہے کہ قیادت وسیادت اگر ایسے لوگوں کے سپرد ہونے لگے جو بد کردار ، بدقماش اور بے ایمان ہو تو یہ بات پوری قوم کے لئے تباہی کی علامت ہوگی ! واضح رہے کہ قوم ، جماعت کے حکم میں شہر اور گاؤں اور محلہ بھی شامل ہیں ! اسی طرح اگر کسی قوم وجماعت کے زعما ان لوگوں کو قرار دیا جانے لگے جو اپنی قوم وجماعت کے کمینہ، بے کردار اور رذیل ترین ہوں تو سمجھ لینا چاہئے کہ اس قوم وجماعت کی تباہی کے دن آگئے ہیں ۔
" آدمی کی تعظیم، اس کے فتنہ وشر کے ڈر سے کی جانے " کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کی تعظیم واحترام کا معیار اس کی ذاتی فضیلت وعظمت پر نہ ہو بلکہ اس کی برائی اور اس کے شر کا خوف ہو ۔ یعنی کسی شخص کی اس لئے تعظیم کی جائے وہ دوسروں کو نقصان پہنچانے یا ستانے کی طاقت رکھتا ہے ، جیسے کسی فاسق وبدقماش شخص کو اقتدار وغلبہ حاصل ہو جائے اور لوگ اس کی عزت اور اس کی تعظیم کرنے پر مجبور ہوں ۔
" گانے والیوں " سے مراد کنجریاں ، ڈومنیاں اور نائنیں وغیرہ ہیں ! اور " قینات " قنۃ کی جمع ہے ، جس کے اصل معنی گانے والی لونڈی کے ہیں، اسی طرح " باجوں " سے مراد ہر قسم کے ساز و باجے اور گانے بجانے کے آلات ہیں جن کو شرعی اصطلاح میں " مزامیر " کہا جاتا ہے جیسے ڈھولک، ہا رمونیم ، طبلہ ، سارنگی اور شہنائی وغیرہ ۔
" شرابوں " جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے کیونکہ یہاں شراب کی تمام انواع واقسام اور دیگر دوسری نشہ آور اشیاء بھی مراد ہیں ۔
" جب اس امت کے پچھلے لوگ، اگلے لوگوں کو برا بھلا کہنے لگیں گے ۔ " میں اس طرف اشارہ ہے کہ یہ برائی اسی امت کے ساتھ مخصوص ہے، گذشتہ امتوں کے لوگوں میں اس برائی کا چلن نہیں تھا ۔ چنانچہ مسلمانوں میں سے رافضی لوگ اس برائی میں مبتلا ہیں کہ وہ ان گذرے ہوئے اکابر یعنی صحابہ تک کے بارے میں زبان لعن و طعن دراز کرتے ہیں جن کے حق میں اللہ تعالیٰ یوں فرماتا ہے ۔
آیت (وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ ) 9۔ التوبہ : 100)
" جن لوگوں نے سبقت کی (یعنی سب سے ) پہلے ( ایمان لائے ) مہاجرین میں سے بھی اور انصار میں سے بھی اور جنہوں نے نیکو کاری کے ساتھ ان کی پیروی کی ، اللہ ان سب سے خوش ہے !۔ "
اور ایک آیت میں یہ فرمایا کہ :
آیت ( لَقَدْ رَضِيَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ يُبَايِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ ) 48۔ الفتح : 18)
" (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) جب مؤمن آپ سے درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے تو اللہ تعالیٰ ان سے خوش ہوا ۔ "
کس قدر بدنصیبی اور شقاوت کی بات ہے کہ جن بندگان خاص سے اللہ تعالیٰ راضی وخوش ہوا ان سے ناراضگی وناخوشی ظاہر کی جائے اور ان کے خلاف ہفوات بکے جائیں ۔ ؟ ان بندگان خاص کے مناقب وفضائل سے قرآن وحدیث بھرے ہوئے ہیں ، وہ پاک نفوس ایسی عظیم ہستیاں ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اللہ کے دین کو قبول کیا ، قبول ایمان میں سبقت حاصل کی ، نہایت سخت اور صبر آزما حالت میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد و حمایت کی ، اللہ کے دین کا پر چم سر بلند کرنے کے لئے اپنی جانوں کی بازیاں لگائیں ، جہاد کے ذریعہ اسلام کی شوکت بڑھائی ، بڑے بڑے شہر اور ملک فتح کئے ، کسی واسطہ کے بغیر سید الامام علیہ الصلوۃ والسلام سے دین کا علم حاصل کیا ، شریعت کے احکام و مسائل سیکھے ، دین کی بنیاد یعنی قرآن کریم کو سب سے زیادہ جانا اور سمجھا ، اور مقدس ، ہستیوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے ذریعہ امت کے تمام لوگوں کو یہ تلقین فرمائی کہ ان کے حق میں یوں گویا ہوں ۔
آیت ( رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِيْمَانِ ) 59۔ الحشر : 10)
" اے پروردگار !ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش جنہوں نے قبول ایمان میں ہم پر سبقت حاصل کی ہے ۔ "
لیکن ان (رافضیوں ) کے وہ لوگ کہ جو یا تو ایمان کی روشنی کھو چکے ہیں، یا دیوانے ہو گئے ہیں ، ان مقدس ہستیوں اور امت کے سب سے افضل لوگوں کے بارے میں صرف زبان لعن وطعن دراز کرنے ہی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ محض اپنے گندے خیالات ونظریات اور سڑے ہوئے فہم کی وجہ سے یہ کہہ کر ان پاک نفسوں کی طرف کفر کی بھی نسبت کرتے ہیں کہ ابوبکر ، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم نے بلا استحقاق خلافت پر قبضہ کیا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت کے اصل مستحق علی تھے ۔ اللہ ان عقل کے اندھوں کو چشم بصیرت دے، آخر وہ یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ اس امت کے اگلے پچھلے تمام لوگوں نے اس بات کو غلط اور باطل قرار ہے ، اور قرآن و سنت میں ایسی کوئی دلیل نہیں جس سے یہ صراحت ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت اول حضرت علی کا حق تھا نیز صحابہ کرام میں سے جن لوگوں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے زمانہ خلافت میں ان سے اختلاف کیا، انہوں نے نعوذ باللہ کسی بری غرض کے تحت حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی مخالفت نہیں کی بلکہ ان کا اختلاف ان کی اجتہادی رائے کے تحت تھا ، زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ خطاء اجتہادی میں مبتلا ہوگئے تھے ، لیکن اس کی وجہ سے بھی ان پر لعن کرنا ، اور ان کے حق میں گستاخانہ باتیں منہ سے نکالنا نہایت ناروا ، بلکہ صریح زیادتی ہے ، بلکہ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ ان میں سے کسی نے بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی مخالفت راہ حق سے بھٹک جانے کی وجہ سے کی اور وہ " فسق" کے مرتکب ہوئے تو بھی ان کو آخر کس بنا پر برا بھلا کہا جا سکتا ہے ، کیونکہ یہ بھی ہو سکتا ہے انہوں نے مرنے سے پہلے اپنی غلط روی سے توبہ کرلی ہو یا اگر توبہ بھی نہ کی ہو تو اللہ تعالیٰ کی ذات سے یہ غالب امید رکھنی چاہئے کہ وہ اپنی رحمت کے صدقہ میں اور ان کی گذشتہ خدمات کے بدلے میں ان کو مغفرت سے نوازدے گا چنانچہ ابن عساکر نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے یہ مرفوع روایت نقل کی ہے کہ (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ) میرے (بعض ) صحابہ (اگر) ذلت یعنی لغزش کا شکار ہوں گے ( تو ) اللہ تعالیٰ ان کو میری صحبت اور میرے ساتھ تعلق رکھنے کی برکت سے بخش دے گا ۔ " اس بات کو اس طرح بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہم لوگ اکثر وبیشتر صغیرہ اور کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرتے رہتے ہیں لیکن اس کے باوجود اپنے پروردگار کی رحمت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے امیدوار رہتے ہیں تو کیا وہ لوگ جو اس امت کے سب سے افضل اور سب سے بڑے لوگوں کے زمرہ سے تعلق رکھتے ہیں ، اس بات کے مستحق نہیں ہیں کہ ان کے حق میں یہ نیک گمان رکھا جائے کہ اگر ان سے کوئی لغزش ہوئی بھی ہوگی تو یقینا اللہ تعالیٰ ان کے درجہ کی عظمت اور ان کے شرف صحابیت کی برکت سے ان سے درگذر فرمائے گا ؟ مرتبہ صحابیت کے تقدس وشرف کو داغدار کرنے والے نادانو! سوچو کہ تم اپنی زبان کو کن مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخی کرکے گندا کررہے ہو ، اور تمہارا یہ طرز عمل رحمۃ للعٰلمین صلی اللہ علیہ وسلم کو کس قدر تکلیف پہنچارہا ہوگا !؟ کیا تم اس بات سے بے خبر ہو کہ نیک بخت وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے خود کے عیوب ان کو دوسروں کی عیب جوئی سے باز رکھیں ؟ کیا تم اس فرمان رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے منکر ہو کہ اپنے مرے ہوئے لوگوں کو برائی کے ساتھ یاد نہ کرو ۔ " کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی نہیں ہے کہ جب تمہارے سامنے میرے صحابہ کا ذکر ہو تو اپنی زبان کو قابو میں رکھو؟ اگر تم ذرا بھی ایمان وعقل کا دعوی رکھتے ہو تو سنو کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ۔ " ابوبکر و عمر کی محبت ، ایمان کی ایک شاخ ہے اور ان دونوں سے بغض وعداوت رکھنا کفر کی علامت ہے ) انصار کی محبت ایمان کی ایک شاخ ہے اور ان سے بغض وعداوت ، کفر ہے ، اہل عرب کی محبت ، ایمان کی ایک شاخ ہے اور ان سے بغض و عداوت کفر ہے جس نے میرے صحابہ کو برے الفاظ سے یاد کیا وہ اللہ کی لعنت کا مستوجب ہوا اور جس نے ان کے بارے میں میرے حکم کی پاسداری کی ، میں قیامت کے دن اس کی پاسداری کرونگا۔ " اے اللہ بس تو ہی ان لوگوں کو عقل سلیم اور چشم بصیرت عطا کر کے راہ ہدایت دکھا سکتا ہے، جو جہالت و نادانی اور تعصب کی وجہ سے تیرے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب صحابہ اور ساتھیوں کی شان میں گستاخی کرتے ہیں اور ان کے حق میں زبان لعن وطعن دراز کرکے خود کو دوزخ کی آگ کا ایندھن بناتے ہیں ۔