دجال کے طلسماتی کارناموں اور یاجوج موج کا ذکر
راوی:
تشریح
تشریح : " تو میں اس سے تمہارے سامنے جھگڑوں ۔ " میں اس طرف اشارہ ہے کہ بالفرض اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں دجال کا ظہور ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دلیل وحجت کے ذریعہ اس پر غالب آنے کے لئے اپنی امت میں سے کسی معاون ومددگار کی مدد کا محتاج نہیں تھے ! بہر حال مذکورہ بالا جملہ کی وضاحت کے سلسلے میں یہ بات ذہن نشین رہنی چائے کہ یہ بات خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم تھی کہ دجال کا ظہور زمانہ نبوی کے بعد ہوگا جیسا کہ دوسری احادیث اور دیگر دلائل وقرائن سے واضح ہے لیکن اس کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مذکورہ جملہ ارشاد فرمانا دراصل دجال کے ظاہر ہونے کی حقیقت کو زیادہ یقین کے ساتھ بیان کرنے اور موکد کرنے، اس کے ظہور کے وقت مبہم ہونے کی طرف اشارہ کرنے اور جن لوگوں کا دجال سے سابقہ پڑنے والا ہے ان کو اس کے فتنہ سے چوکنا کرنے کے پیش نظر تھا ۔
" تو پھر تم میں سے ہر شخص اپنی ذات کی طرف سے اس سے جھگڑنے والا " کا مطلب یہ ہے کہ دجال کے ظاہر ہونے کے وقت جو مسلمان اس دنیا میں ہوں گے ان میں سے ہر ایک کی یہ ذمہ داری ہوگی کہ وہ اس کے شر سے بچنے کے لئے شرعی وقطعی اور عقلی دلائل کے ذریعہ اس سے بحث ومباحثہ کرے اور اس پر غالب آئے لیکن یہ بات فرض کرلینے کے بعد کہ دجال بحث ومباحثہ کو سننے اور دلائل کو تسلیم کرنے والا ہوگا ورنہ اس جملہ کے اصل معنی یہ ہوں گے کہ اس وقت ہر مؤمن کی یہ ذمہ داری ہوگی کہ وہ دجال کی تکذیب کرے ، اس کی بات کو قبول کرنے اور اس کو تکلیف واذیت پہنچانے کی صورت اختیار کر کے اس کے شر سے اپنے کو بچائے ۔
" میرا وکیل وخلیفہ ہر مسلمان کے لئے اللہ تعالیٰ ہے " میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ میرے بعد اللہ تعالیٰ ہر مومن و مسلمان کا حافظ وناصر ہوگا اور دجال کے فتنہ سے بچنے میں مدد دے گا پس یہ اس بات کی دلیل ہے کہ کامل یقین رکھنے والا مومن ہمیشہ مدد ونصرت پاتا ہے اگرچہ ان کے درمیان نبی صلی اللہ علیہ وسلم وامام موجود نہ ہو، اس اعتبار سے حدیث فرقہ امامیہ کے خلاف مضبوط دلیل ہے ۔
" دجال جوان ہوگا ۔ " سے یہ ثابت ہوا کہ ابن صیاد پر دجال کا اطلاق کرنا صحیح نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے ، ان الفاظ سے اس طرف بھی اشارہ ہو سکتا ہے کہ سفید بالوں کی صورت میں کسی شخص کو جو وقار حاصل ہوتا ہے اس سے دجال محروم ہوگا ۔
" عبد العزی ابن قطن " ایک یہودی کانا تھا ، اور بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ کوئی مشرک تھا کیونکہ " عزی " ایک بت کا نام ہے ۔ اس کی طرف عبد یعنی بندہ کی نسبت رکھنے والا مشرک ہی ہو سکتا ہے ، اس کی تائید بعض حضرات کے اس قول سے بھی ہوتی ہے کہ اس عبد العزی قبیلہ خزاعہ کا ایک شخص تھا جو زمانہ جاہلیت میں مرچکا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دحال کو عبد العزی کے ساتھ تشبیہ دی تو اس میں جزم کا اظہار نہیں فرمایا بلکہ " گویا " کا لفظ اظہار شک کے لئے نہیں ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ جس شخص کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے یعنی عبد العزی، اس کا تعارف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم کشف یا خواب میں حاصل ہوا تھا اس لئے اس کے ساتھ دجال کو تشبیہ دیتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کانے کا لفظ استعمال فرمایا جیسا کہ کسی خواب کو بیان کرنے کا یہی اسلوب معتبر ہے ۔
سورت کہف کی ابتدائی آیتوں سے مراد شروع سے ان یقولون الا کذبا تک کی آیتیں ہیں آیتوں کو دجال کے سامنے پڑھنے کا حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ ان میں جو مضامین مذکورہ ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کی معرفت، اس کی کتاب اور آیات بینات کے ثبوت اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت، اور رسول کی اس اعجازی شان پر دلالت کرتے ہیں جس کی برکت سے دجال کے محیر العقول کارنامے ملیامیٹ ہو کر رہ جائیں گے اور اس کی اتباع کرنے والے ہلاکت وتباہی کے علاوہ اور کچھ نہیں پائیں گے ! طیبی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ سورت کہف کی ابتدائی آیتیں یہ خاصیت رکھتی ہیں کہ ان کا پڑھنے والا دجال کے فتنہ سے امن وحفاظت میں رہے گا جیسا کہ اصحاب کہف نے اپنے زمانے کی سب سے بڑی طاقت سے شروفتنہ سے امان ونجات پائی تھی واضح رہے کہ بعض احادیث میں ان آتیوں کو رات میں سوتے وقت بھی پڑھنا منقول ہے ! مسلم کی دوسری روایت میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ فانھا جوارکم من فتنۃ ( کیونکہ وہ آیتیں تمہیں دجال کے فتنہ سے محفوظ ومامون رکھیں گی ) تو اکثر صحیح نسخوں میں " جوار " کا لفظ جیم کے زیر اور آخر میں ر کے ساتھ ہے، جس کے معنی اس پروانہ راہ داری کے ہیں جس کی بنیاد پر کوئی شخص سفر کرتا ہے اور راستہ میں اس کو کوئی روک ٹوک نہیں کرتا پھر بعض شروح میں " جوار " جیم کے زبر اور پیش کے ساتھ بیان کیا گیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ لفظ جیم کے زیر کے ساتھ ہی فصیح ہے اس موقع پر یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ حصن حصین میں سورت کہف کے تعلق سے متعدد روایتیں منقول ہیں مثلا ایک روایت میں یہ ہے کہ جس شخص نے سورت کہف پڑھ لی اس کو اس کے پاس سے لے کر مکہ مکرمہ تک کی نورانیت حاصل ہوتی ہے اور دس شخصوں نے اس سورت کی آخری دس آیتیں پڑھیں اور پھر اس کے زمانہ میں دجال نکل آئے تو دجال اس پر تسلط پانے میں ناکام رہے گا ایک اور روایت میں یہ ہے کہ جس شخص نے سورت کہف کی ابتدائی تین آیتیں پڑھ لیں وہ دجال سے محفوظ ہوگیا ان آخری دونوں روایتوں میں دس آیتوں اور تین آیتوں کی صورت میں جو ظاہری تضاد ہے اس کو ختم کرنے کے لئے یوں تو بہت سے اقوال ہیں لیکن زیادہ واضح قول یہ ہے کہ سورت کہف کا کم سے کم حصہ کہ جس کا پڑھنا دجال کے شر سے محفوظ رکھے گا تین آیتیں ہیں اور ان تین آیتوں کو حفظ کر لینا اولی ہے لہٰذا یہ بات زیادہ حصہ مثلا دس آیتوں کے پڑھنے یا اس کو حفظ کرنے کے منافی نہیں ہے۔
" اور وہ دائیں بائیں فساد پھیلائے گا ۔ " سے اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ دجال جن شہروں اور علاقوں سے گزرے گا صرف انہی جگہوں پر فتنہ وفساد پھیلانے پر اکتفا نہیں کرے گا بلکہ وہ اپنے دائیں بائیں اور ادھر ادھر، جہاں خود نہیں جا سکے گا اپنے لشکر اور اپنے تابعداروں کی جماعت بھیجے گا، اس طرح اس کے فتنہ وشر سے کوئی مومن امن میں نہیں ہوگا اور ایسی کوئی جگہ باقی نہیں بچے گی جہاں اس کا فتنہ نہ پہنچے ۔
اے اللہ کے بندوں ، تم ثابت قدم رہنا ۔ " یہ خطاب ان مومنین سے ہے جو دجال کے زمانہ میں ہوں گے، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات اپنے صحابہ کرام سے فرمائی کہ اگر بالفر ض تم دجال کا زمانہ پاؤ تو اس وقت دین پر مضبوطی سے قائم رہنا ۔
" چالیس دن " کے سلسلے میں یہ ملحوظ رہے کہ یہاں مسلم کی روایت میں تو دجال کی مدت قیام چالیس دن فرمائی گئی ہے جب کہ آگے آنے والی ایک حدیث میں یہ مدت چالیس سال بیان کی گئی ہے پس بغوی نے شرح السنۃ میں لکھا ہے کہ چالیس سال بیان کرنے والی حدیث صحت واسناد کے اعتبار سے اس درجہ کی نہیں ہے کہ اس کو مسلم کی اس روایت کے معارض قرار دیا جا سکے ، اور بالفرض اس کو اس درجہ کی صحیح حدیث بھی تسلیم کر لیا جائے تو یہ کہا جائے گا کہ ان دونوں حدیثوں میں جو الگ الگ دو مدتیں بیان کی گئی ہیں ان میں سے ایک مدت تو وہ ہے جس میں دنیا والوں پر اس کا ظہور ہی نہیں ہوگا بلکہ اس دنیا میں اس کی موجودگی غیر معلوم ہوگی اور دوسری مخصوص مدت ہے جس کے دوران دنیا والوں پر ظاہر رہے گا اور انہیں تعین کے ساتھ اس کی موجودگی کا علم ہوگا ۔
" نماز پڑھنے کے لئے ایک دن حساب لگانا ہوگا ۔ " کا مطلب یہ ہے کہ جب طلوع فجر کے بعد اتنا وقت گزر جائے جو عام دنوں کے اعتبار سے فجر اور ظہر کے درمیان ہوتا ہے تو اس وقت ظہر کی نماز پڑھی جائے اور جب ظہر کے بعد اتنا وقت گزر جائے جو عام دنوں میں ظہر اور عصر کے درمیان ہوتا ہے تو اس وقت عصر کی نماز پڑھی جائے اور جب عصر کے بعد اتنا وقت گزر جائے ، جو عام دنوں میں عصر ، مغرب کے درمیان ہوتا ہے تو اس وقت مغرب کی نماز پڑھی جائے ۔ اسی حساب سے عشاء وفجر کی نماز پڑھی جائے۔ غرضیکہ پانچوں نمازیں اس اندازے اور حساب سے پڑھی جائیں گی یہاں تک کہ وہ دن، ایک برس کے برابر ہو کر گزر جائے نیز یہی اندازہ اور حساب ان دنوں میں اختیار کیا جائے گا جو ایک مہینہ اور ایک ہفتہ کے برابر ہوں گے واضح رہے کہ مذکورہ دنوں کی طوالت کا جو ذکر کیا گیا ہے وہ حقیقت میں اتنے ہی طویل ہوں گے اور یقینا اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ وہ شب وروز کی گردش کو مختصر سے مختصر اور طویل سے طویل کر سکتا ہے اس بارے میں بعض حضرات نے جو یہ کہا ہے کہ وہ دن حقیقت میں اس قدر طویل نہیں ہوں گے بلکہ ہجوم افکار اور کثرت آلام کی بنا پر اس قدر طویل معلوم ہوں گے تو یہ بات بالکل صحیح نہیں ہے اس کی سب سے بڑی دلیل صحابہ کرام کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مذکورہ سوال کرنا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا انہیں یہ جواب دینا کہ نماز پڑھنے کے لئے ایک دن کا حساب لگانا ہوگا نیز بعض حضرات جو یہ اشکال ظاہر کرتے ہیں کہ نماز تو وقتوں یعنی سورج کے طلوع وغروب وغیرہ کے اعتبار سے مقرر ہوتی ہے اور جب اس طلوع و غروب وغیرہ کا وقت ہی نہیں ہوگا تو نمازیں کس طرح پڑھی جائیں گی ؟ تو یہ اشکال بالکل لغو ہے، حقیقت یہ ہے کہ اصل چیز شارع کا حکم ہے جب شارع علیہ السلام نے اس مخصوص دن کے لئے مذکورہ حکم ارشاد فرمایا دیا ہے تو پھر کسی کو چون وچرا کی کیا گنجائش ہے علامہ تورپشتی وغیرہ نے اس موقع پر مذکورہ اشکال کے اور جواب بھی لکھے ہیں ، اہل علم مرقات میں دیکھ سکتے ہیں ۔
" ان کے کوہان بڑے بڑے ہو جائیں گے ۔ " میں کوہان " ذری " کا ترجمہ ہے جو " ذروہ " کی جمع ہے ، جس کے اصل معنی بلندی ، بلند جگہ کے ہیں ، اسی اعتبار سے اونٹ کے کوہان پر بھی ذروۃ کا اطلاق ہوتا ہے اس جملہ کا حاصل یہ ہے کہ جو جانور چرنے کے لئے جنگل گئے ہوں گے وہ بہت فربہ ہو کر واپس آئیں گے ۔
" پھر اس قوم کے لوگ قحط وخشک سالی اور تباہ حالی کا شکار ہو جائیں گے " کے ذریعہ اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ مومن چونکہ دجال کی بات کو قبول کرنے اور اس کی پیروی سے انکار کر دیں گے اس لئے وہ دجال کی طرف سے طرح طرح کی سختیوں اور مصیبتوں میں مبتلا کئے جائیں لیکن وہ ان تمام سختیوں اور مصائب کو صبر وشکر کے ساتھ برداشت کریں گے اور اپنے دین وعقیدہ پر قائم رہیں گے ، اور یہ اس وجہ سے ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے ان مؤمنوں کو اولیاء کاملین کی صفات وخصوصیات عطاء فرما دے گا ۔
فتتبعہ کنوزہا کیعاسیب النخل ( وہ خزانے اس طرح اس کے پیچھے پیچھے ہو لیں گے جس طرح شہد کی مکھیوں کے سردار ہوتے ہیں " یعاسیب " اصل میں " یعسوب " کی جمع ہے جس کے معنی ہیں شہد کی مکھیوں کا سردار ، حاصل یہ کہ جس طرح " یعسوب " آگے ہوتا ہے اور شہد کی مکھیاں اس کے ساتھ پیچھے پیچھے ہوتی ہیں اس طرح دجال کے ساتھ خزانے اس کے پیچھے پیچھے ہوں گے اور سردار کے تعلق کی مناسبت سے قوم وجماعت کے سربراہ کو بھی " یعسوب " کہا جاتا ہے، جیسا کہ دیلمی نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں یہ مرفوع حدیث نقل کی ہے کہ علی یعسوب المؤمنین والمال یعسوب المنافقین یعنی علی مؤمنوں کے سردار ہیں کہ تمام مؤمن ان کی اتباع کرتے ہیں اور ان کی امان وپناہ میں رہتے ہیں ) اور مال منافقوں کا سردار ہے ( کہ منافق مال وزر کے پیچھے رہتا ہے اور اس کی امان وپناہ میں رہنا چاہتا ہے ) نیز حضرت ابوبکر کی مدح میں بھی منقول ہے کہ حضرت علی نے ان کے مرثیہ میں فرمایا تھا کنت للدین یعسوب (یعنی اے ابوبکر آپ تو دین کے ریئس سردار تھے ۔
" جو دمشق کے مشرقی جانب کے سفید منارہ پر اتریں گے ۔" اس روایت سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام دمشق میں اتریں گے ، لیکن ایک روایت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ بیت المقدس میں ، ایک روایت میں اردن میں اترنا منقول ہے اور ایک روایت میں ہے کہ مسلمانوں کی اجتماع گاہ میں اتریں گے واضح رہے کہ جس روایت میں حضرت عیسی علیہ السلام کا بیت المقدس میں اترنا منقول ہے وہ ابن ماجہ کی ہے اور اسی کو راجح قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ حقیقت میں یہ دوسری روایتوں کے منافی نہیں ہے اس وجہ سے کہ بیت المقدس ، دمشق کے جانب مشرق میں واقع ہے ، بیت المقدس مسلمانوں کا اجتماع گاہ بھی ہے اور بیت المقدس اردن ہی کا علاقہ ہے ، صرف ایک چیز رہ جاتی ہے وہ یہ کہ بیت المقدس میں سفید منارہ نہیں ہے ، لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ حضرت عیسی علیہ السلام کے اترنے سے پہلے المقدس میں منارہ بھی بن سکتا ہے ۔
بین مہزدتین ( اس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام زردرنگ کے کپڑے پہنے ہوں گے ) لفظ مہزدتین دال سے بھی منقول ہے اور ذال سے بھی اس جملہ کا حاصل یہ ہے کہ آسمان سے اترنے کے وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسم پر جو دو کپڑے ہوں گے وہ زعفران سے یا عصفر ( زردرنگ کی ایک گھاس ) سے رنگے ہوئے ہوں گے ۔
واذا رفعہ تحدر منہ مثل جمان اللؤ لؤ ۔ ( اور جب سر اٹھائیں گے تو ان کے بالوں سے چاندی کے دانوں کی مانند قطرے گریں گے جو موتیوں کی طرح ہوں گے ) کا مطلب یہ ہے کہ ان سے ٹپکنے والے پسینہ کے قطرے اس قدر صاف اور سفید ہوں گے جیسا کہ موتیوں کی طرح چاندی کے دانے ہوتے ہیں ۔ نہایہ میں لکھا ہیں کہ لفظ جمان عذاب کے وزن پر ہے اور اس کے معنی ہیں چاندی کے بنے ہوئے بڑے بڑے موتی اس کا واحد جمانتہ ہے ! طیبی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پسینہ کے قطروں کو پہلے تو بڑائی میں جمان کے ساتھ تشبیہ دی اور پھر صفائی اور خوشنمائی کے اعتبار سے جمان کو موتی کے ساتھ تشبیہ دی ! اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ لفظ " جمان " میم کی تشدید کے ساتھ تو چھوٹے موتی کو کہتے ہیں اور جمان جیم کی تشدید کے بغیر، ان دانوں کے کہتے ہیں جو چاندی کے بنائے گئے ہوں اور یہاں یہی دوسرے معنی مراد ہیں اور حاصل یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب اپنا سر جھکائیں گے تو ان کے سر کے بالوں میں نورانی قطرے ظاہر ہونگے اور جب سر اٹھائیں گے تو وہ قطرے ٹپک پڑیں گے یہ گویا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شادابی وتازگی اور ان کے جمال واطراوت سے کنایہ ہے ۔
" یہ نا ممکن ہوگا کہ کسی کافر تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سانس کی ہوا پہنچے اور وہ مر نہ جائے " اس جملہ سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس حکم میں خود دجال شامل کیوں نہیں ہوگا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دجال کو اس حکمت ومصلحت کے پیش نظر اس حکم سے مستثنی رکھا گیا ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں قتل ہو اور وہ اس کے خون سے آلود اپنا نیزہ لوگوں کو دکھائیں تاکہ مؤمنین کے ذہن میں دجال کا ساحر وفریب کار ہونا ظاہر ہو اور اپنی آنکھوں سے اس کے فریب کا پردہ چاک ہوتے دیکھ لیں یا یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سانس کی ہوا سے کافروں کا مرجانا ان کی ایک ایسی کرامت ہوگی جو ان کے آسمان سے اترنے کے وقت یا اس کے کچھ بعد تک ظاہر رہے گی اور پھر جب وہ دجال کی طرف متوجہ ہوں گے تو یہ کرامت اٹھا لی جائے گی ، چنانچہ کسی کرامت کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ ہمیشہ اور ہر وقت ظاہر رہے اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ یہ کرامت ان کے معمول کے مطابق ہر آنے والے سانس کی نہیں ہوگی بلکہ اس کا تعلق صرف اس مخصوص سانس سے ہوگا جس سے کسی کافر کو مارنا مقصود ہوگا سبحان اللہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اعجازی شان کے کیا کہنے ، ایک وہ وقت تھا جب وہ اپنی پھونک سے مردہ کو زندہ کر دیتے تھے اور ایک وقت ہوگا کہ ان کے سانس کی ہوا سے زندہ لوگ موت کے گھاٹ اتریں گے ۔
لد (لام کے پیش اور دال کی تشدید کے ساتھ ) شام کے ایک پہاڑ کا نام ہے اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ لد بیت المقدس کے ایک گاؤں کا نام ہے اور بعض حضرات کے نزدیک وہ فلسطین کے ایک گاؤں کا نام ہے۔
" حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان لوگوں کے چہروں سے گردوغبار صاف کریں گے " ہو سکتا ہے کہ چہروں سے گردوغبار کا صاف کرنا اپنے ظاہری معنی پر محمول ہو ، کہ واقعۃ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ازراہ لطف وکرم ان لوگوں کے چہروں سے گردوغبار صاف کریں گے ، یا اس جملہ کے ذریعہ اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان لوگوں کے دلوں سے دجال کا خوف دور کریں گے اور ان کو راحت واکرام کے اسباب فراہم کرکے ان کی تعب وکلفت کو ختم کریں گے ۔
" بحیرہ طبریہ " اضافت کے ساتھ ہے ، اور لفظ " بحیرہ " اصل میں بحرۃ کی تصغیر ہے جس کے معنی اس جگہ کے ہیں جہاں پانی جمع ہوتا ہے جیسے سمندر یا بڑا دریا ، چنانچہ بحیرہ کے معنی چھوٹے دریا یعنی جھیل کے ہیں ، بحیرہ طبریہ اس جھیل کو کہتے ہیں جو دس کوس لمبی ہے اور شام کے علاقہ طبریہ میں واقع ہے ۔
" جبل خمر " ایک پہاڑ کا نام ہے خمر اصل میں گھنی جھاڑی کو کہتے ہیں یا اس زمین کو کہتے ہیں جو درختوں اور جھاڑیوں میں چھپی ہوئی ہو ، چنانچہ اس پہاڑ پر درخت اور گھنی جھاڑیاں بہت ہیں اس لئے اس کو جبل خمر کا نام دیا گیا ۔
" ان کے لئے بیل کا سر تمہارے آج کے سو دیناروں سے بہتر ہوگا " کے ذریعہ اس طرف اشارہ مقصود ہے کہ لوگوں کو اشیاء کی قلت اور بے تحاشا گرانی اس طرح گھیرے گی کہ معمولی چیز بڑی سے بڑی قیمت پر مشکل سے دستیاب ہوگی ۔ مثلا جانور کے تمام اعضاء میں سب سے سستا کلہ کا گوشت سمجھا جاتا ہے مگر اس وقت ان لوگوں کے نزدیک اسی کلہ کا گوشت ایک سو دینار میں بھی بہت غنیمت معلوم ہوگا اس سے اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ دوسرے اجزاء کے گوشت کی اہمیت ان کے نزدیک کیا ہوگی اور وہ کس قدر بیش قیمت ہوں گے ۔
" وہ پرندے ان کی لاشوں کو " نہبل " میں ڈالدیں گے ) یہ لفظ نون کے زبر ہ کے جزم اور ب کے زبر کے ساتھ " نہبل " ہے ، اور مشکوٰۃ کے اکثر نسخوں میں اسی طرح منقول ہے ، یہ دراصل ایک جگہ کا نام ہے جو بیت المقدس کے علاقہ میں واقع ہے ، لیکن مجمع البحار میں کومانی سے منقول ہے کہ یہ لفظ میم کے ساتھ " منہل " ہے جس کے معنی زمین میں گہرے گڑھے کے ہیں ! قاموس میں لام کے باب اور میم کی فصل میں لفظ " منھل " کی معنی پہاڑ سے گرپڑنے کے لکھے ہیں نیز کہا ہے کہ ترمذی نے دجال سے متعلق حدیث میں فطرحہم بالنہبل (یعنی " نھبل " کا لفظ ذکر کیا ہے جب کہ زیادہ صحیح میم کے ساتھ " منہل " ہے ۔
جس سے کوئی بھی مکان خواہ وہ مٹی کا ہو یا پتھر اور صوف کا ہو نہیں بچے گا ۔ " میں مٹی اور پتھر کے مکان سے شہری علاقے اور صوف ( یعنی خیموں اور چھپر ) کے مکان سے دیہاتی اور جنگلی علاقے مراد ہیں ، حاصل یہ کہ وہ بارش ہر جگہ اور ہر علاقہ میں بر سے گی ، ایسی کوئی جگہ نہیں ہوگی جہاں اس بارش کا پانی نہ پہنچے اور کوئی دیوار و خیمہ وغیرہ اس پانی کو کسی بھی جگہ سے روک نہیں سکے گا!واضح رہے کہ لفظ " لا یکن " ی کے زبر اور کاف کے پیش کے ساتھ کن سے بھی منقول ہے اور ی کے پیش کاف کے زبر کے ساتھ" اکنان " سے بھی نقل کیا گیا ہے ، ویسے دونوں کے معنی ایک ہی ہیں یعنی حفاظت وپوشیدگی ۔
" اور اس انار کے چھلکے سے لوگ سایہ حاصل کریں گے ۔ " کے بارے میں ایک شارح نے کہا ہے کہ " چھلکے ' ' سے انار کے اوپر کا آدھا چھلکا مراد ہے اصل میں " قحف " اس گول ہڈی (یعنی کھوپڑی ) کو کہتے ہیں جو دماغ کے اوپر ہوتی ہے ، اور لکڑی کے پیالہ کو بھی " قحف " کہتے ہیں لہذا اس مشابہت کی وجہ سے حدیث میں انار کے چھلکے کو " قحف" سے تعبیر کیا گیا ہے ۔
" الفأام من الناس " ( لوگوں کی ایک بڑی جماعت ) میں لفظ " فأام " دجال کے وزن پر ہمزہ کے ساتھ ہے، اور عام بول چال میں ہمزہ کو ی سے بدل دیتے ہیں، بہر حال یہ لفظ " آدمیوں کی جماعت ۔ " کے معنی ہیں ہے اور یہاں اس سے مراد لوگوں کی اتنی بڑی جماعت ہے جس پر " قبیلہ " سے زیادہ لوگوں کا اطلاق ہو ، جیسا کہ " قبیلہ کا اطلاق ، لوگوں کی اس جماعت پر ہوتا ہے جو " فخذ " سے زیادہ ہو اور " فخذ" یہاں ف کے زبر اور خ کے جزم کے ساتھ ہے ، جس کے معنی صرف عزیر واقربا کی جماعت کے ہیں، اور اس کا اطلاق لوگوں کی اس جماعت پر ہوتا ہے جو " بطن " سے کم ہو اور " بطن " کا اطلاق " قبیلہ، سے بھی کم جماعت پر ہوتا ہے !ویسے فخذ " خ " کے زیر کے ساتھ بلکہ خ کے جزم کے ساتھ بھی ) کے معنی " ران " کے آتے ہیں ۔
" اور پھر وہ ہوا ہر مومن ہر مسلمان کی روح قبض کر لے گی " میں ہوا کی طرف روح قبض کرنے کی نسبت مجازی ہے، حقیقت میں روح کو قبض کرنے کا کام ملک الموت ( یعنی موت کے فرشتے ) کا ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے ارواح قبض کرتا ہے ۔ یہ بات اپنی جگہ بیان ہو چکی ہے کہ مؤمن اور مسلم دونوں ایک ہی ہیں ، جو مؤمن ہے وہ مسلمان ہے اور جو مسلمان ہے وہ مؤمن ہے ، البتہ ان دونوں کے درمیان جو لطیف فرق علماء نے بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ مؤمن تو تصدیق قلبی کے اعتبار سے کہتے ہیں جس کا تعلق باطن سے ہوتا ہے اور مسلمان ظاہری انقیاد اطاعت کے اعتبار سے کہتے ہیں ، لہذا یہاں ان دونوں کو الگ الگ بیان کرنے سے مراد تاکید بھی ہے اور تعمیم بھی اس حکم کے دائرے سے کوئی بھی باہر نہ رہے ۔
" جو آپس میں گدھوں کی طرح مختلط ہو جائیں گے " کے بارے میں بعض شارحین نے کہا ہے کہ یہاں اختلاط سے مراد جماع کرنا یعنی وہ لوگ بے حیاء اور بے لحاظ ہو کر علانیہ لوگوں کے سامنے جماع کریں گے جیسا کہ گدھے کرتے ہیں چنانچہ " ھرج " کا لفظ جماع کے معنی میں بھی آتا ہے ۔ " اور انہی لوگوں پر قیامت قائم ہوگی " کا مطلب یہ ہے کہ جب قیامت آئے گی تو اس وقت اس دنیا میں صرف وہی بدکار واشرار لوگ ( یعنی کفار وفجار ہوں گے ، ان کے برعکس لوگ یعنی مؤمنین وصالحین نہ اس وقت اس دنیا میں موجود ہوں گے اور نہ ان پر قیامت قائم ہوگی چنانچہ آگے ایک حدیث آرہی ہے اس میں فرمایا گیا ہے کہ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ روئے زمین پر اللہ اللہ کہنا بند نہ ہو جائے ( یعنی قیامت اسی وقت آئے گی جب روئے زمین پر ایک بھی اللہ کا نام لیوا باقی نہیں رہے گا۔