دجال کے تابعدار یہودی ہوں گے
راوی:
وعن أنس عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال يتبع الدجال من يهود أصفهان سبعون ألفا عليهم طيالسة . رواه مسلم . ( متفق عليه )
" اور حضرت انس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " اصفہان کے ستر ہزار یہودی دجال کی اطاعت وپیروی اختیار کریں گے جن کے سروں پر طیلسائیں ہوں گی ۔ ( مسلم )
تشریح
لفظ " یتبع " ی کے زبر ، ت کے جزم اور ب کے زیر کے ساتھ ہے جس کے معنی ہمراہ ہونے کے ہیں ۔ لیکن ایک شارح نے کہا ہے کہ یہ لفظ اتباع ( ت کی تشدید کے ساتھ ہے جس کے معنی ہیں پیروی کرنا ! اصفہان ( الف کے زبر اور زیر دونوں کے ساتھ ایک مشہور شہر کا نام ہے جو ایران میں واقع ہے ایک روایت میں " ستر ہزار " کے بجائے نوے ہزار " کے الفاظ ہیں لیکن مشہور روایت کے مطابق زیادہ صحیح ستر ہزار ہی ہے ! لفظ طیالستہ اصل میں " طیلسان " کی جمع ہے جو عرب میں ایک مشہور کپڑے کا نام ہے اور یہ چادر کی صورت میں ہوتا ہے ۔ عیاض وغیرہ نے یہ نقل کیا ہے کہ طیلسان کا لفظ معرب ہے ، یعنی اصل میں یہ لفظ " تالسان " تھا جس کو عربی میں " طیلسان " کر دیا گیا ہے واضح رہے کہ بعض علماء نے اس حدیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ طیلسان اوڑھے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ یہ لوگ خیبر کے یہودی جیسے معلوم ہوتے ہیں تا ہم حقیقت یہ ہے کہ طیلسان میں کوئی برائی نہیں ہے اور اس کو استعمال کرنا کوئی قباحت نہیں رکھتا بلکہ سر کو چادر سے ڈھانکنے کے طور پر طیلسان کا استعمال مسنون بھی ہے چنانچہ اس سلسلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے متعلق بہت سی حدیثیں منقول ہیں گو یہ ہوسکتا ہے کہ کسی زمانہ میں طیلسان صرف یہودیوں کے مخصوص لباس سے تعلق رکھتی ہو اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی اعتبار سے اس کے استعمال کو پسندیدہ نظر سے نہ دیکھا ہو، یا انہوں نے اس سبب سے اپنی نا پسندیدگی کا اظہار کیا ہو کہ ان لوگوں نے اس وقت جو طیلسان اوڑھ رکھی تھی ان کا رنگ زرد تھا اس موقع پر یہ بتا دینا بھی ضروری ہے کہ طیلسان کے سلسلہ میں علماء کے درمیان جو اختلاف ہے وہ صرف اس کے چادر کے طور پر اس طرح اوڑھنے کے متعلق ہے کہ اس کا پلہ سر کے اوپر اوڑھا جائے اور اس کے کناروں کو کاندھے پر ڈال لیا جائے جس کو " تقنع " اور قناع بھی کہا جاتا ہے ! بہر حال جو حضرات طیلسان کے استعمال کے خلاف ہیں ان کا کہنا ہے کہ طیلسان اوڑھنے کے بارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے جو کچھ منقول ہے اس کا تعلق خاص حالات اور ضرورت سے ہے ، کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے کسی خاص ضرورت کے تحت مثلا کسی وقت دھوپ سے بچنے کے لئے طیلسان کو اپنے سر پر ڈال لیا ہوگا لیکن جمہور علماء نے طیلسان کے اوڑھنے اور استعمال کرنے کو بلا کراہت مطلق جائز قرار دیا ہے ، چنانچہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ سر کو طیلسان سے ڈھانکو ، کیونکہ چادر اوڑھنا اہل عرب کا پہناوا ہے اور " اقتناع " ( یعنی طیلسان کو مذکورہ بالا طریقہ سے اوڑھنا ) اہل ایمان کا پہناوا ہے ایک اور حدیث میں یوں ہے کہ طیلسان سے سر کو ڈھانکنا ، دن میں نفقہ ہے اور رات میں زینت نیز ایک روایت میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قناع کو بہت اختیار فرماتے ہیں ۔ اسی طرح صحابہ کرام سے بھی " تقنع " کا اختیار کرنا منقول ہے اور اس بارے میں کافی آثار واخبار ثابت ہیں ۔