مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ قیامت سے پہلے ظاہر ہونے والی نشانیاں اور دجال کا ذکر ۔ حدیث 46

دجال مدینہ میں داخل نہیں ہوگا

راوی:

وعن أبي سعيد الخدري قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يأتي الدجال وهو محرم عليه أن يدخل نقاب المدينة فينزل بعض السباخ التي تلي المدينة فيخرج إليه رجل وهو خير الناس أو من خيار الناس فيقول أشهد أنك الدجال الذي حدثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم حديثه فيقول الدجال أرأيتم إن قتلت هذا ثم أحييته هل تشكون في الأمر ؟ فيقولون لا فيقتله ثم يحييه فيقول والله ما كنت فيك أشد بصيرة مني اليوم فيريد الدجال أن يقتله فلا يسلط عليه . متفق عليه . ( متفق عليه )

" اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " دجال ( جب دنیا میں ) آئے گا یعنی ظاہر ہوگا ( تو مدینہ منورہ کی جانب بھی رخ کرے گا تاکہ اس شہر مقدس میں داخل ہو کر فتنہ وفساد پھیلائے ) لیکن مدینہ کے راستوں میں اس کا داخل ہونا ممنوع ہو جائے گا ( یعنی اللہ تعالیٰ اس شہر کی حفاظت فرمائیں گے اور دجال اس میں داخل ہونے پر قادر نہیں ہو سکے گا ) آخر وہ مدینہ کے قریب کی کھاری زمین میں ٹھہر جائے گا پھر اس کے پاس ایک شخص آئے گا ( جو اس زمانہ کے ) بہترین لوگوں میں سے ہوگا وہ شخص ( دجال سے ) کہے گا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ تو وہی دجال ہے جس کی خبر ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے احوال وعلامات بیان کرنے کے ذریعہ دی ہے دجال (یہ سن کر اپنے ارد گرد کے لوگوں سے ) کہے گا کہ بتاؤ اگر میں اس شخص کو قتل کرکے دوبارہ زندھ کر دوں تو کیا پھر بھی تم میرے ( خداہونے ) کے بارے میں شک وشبہ کرو گے وہ لوگ جواب دیں گے کہ ہم کو پھر کوئی شک وشبہ نہیں رہے گا ! پس دجال اس شخص کو جان سے مار ڈالے گا اور پھر اس کو زندہ کر دے گا ( اور وہی سوال کرے گا جو گزشتہ حدیث میں گزرا ) تب وہ شخص کہے گا کہ اللہ کی قسم تیرے بارے میں بصیرت اور میرا یقین اب پہلے سے بھی زیادہ پختہ ہے ( یعنی پہلے تو صرف علم وخبر کی بنیاد پر تیرے دجال ہونے کا یقین تھا مگر اب اس تجربہ سے کہ تو نے مجھے پہلے جان سے مارا اور پھر زندہ کر دیا یہ یقین اور زیادہ بڑھ گیا ہے کہ تو جھوٹا دجال ہی ہے اور تیرا خدائی دعویٰ سراسر باطل ہے دجال ( یہ سن کر ) چاہے گا کہ اس کو قتل کر دے مگر وہ اس پر قادر نہیں ہو سکے گا ۔ " ( بخاری ومسلم )

تشریح
تو وہ لوگ جواب دیں گے کہ ہم کو پھر کوئی شک وشبہ نہیں رہے گا ۔ " اس جملہ میں " لوگوں سے مراد اگر وہ لوگ ہیں جو دجال کے گرویدہ وتابعدار ہوں گے تو یہ جملہ بالکل واضح ہے اور اپنے اصل معنی ہی پر محمول ہے لیکن اگر " لوگوں " سے اہل ایمان کو بہی مراد لیا جائے تو پھر اس جملہ کی تاویل یہ ہوگی کہ ان لوگوں کا مذکورہ جواب دینا دراصل ازراہ خوف اور دافع الوقتی کی بناء پر ہوگا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے مراد بطریق توریہ اور کنایہ دجال کے جھوٹ اور فریب کاری شک وشبہ نہ کرنا ہو ۔
مگر وہ اس پر قارد نہیں ہو سکے گا " میں اس بات کی دلیل ہے کہ دجال کو ڈھیل دینے کے لئے جو مافوق الفطرت طاقت وقدرت دی جائے گی وہ صرف شروع میں کچھ عرصہ کے لئے ہوگی، بعد میں اس سے وہ طاقت وقدرت سلب کرلی جائے گی جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ اپنے آپ کو اس پر قادر نہیں پائے گا کہ جو چاہے کر گزرے ۔

یہ حدیث شیئر کریں