صحیح بخاری ۔ جلد سوم ۔ طلاق کا بیان ۔ حدیث 318

جس عورت کا شوہر مرجائے وہ چار ماہ دس دن تک اس کا سوگ منائے گی اور زہری نے کہا کہ میں مناسب نہیں سمجھتا کہ کمسن لڑکی جس کا شوہر مرجائے وہ خوشبو لگائے، اس لئے کہ اس پر بھی عدت ہے

راوی: زینب، ام سلمہ

قَالَتْ زَيْنَبُ وَسَمِعْتُ أُمَّ سَلَمَةَ تَقُولُ جَاءَتْ امْرَأَةٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ ابْنَتِي تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا وَقَدْ اشْتَكَتْ عَيْنَهَا أَفَتَكْحُلُهَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا كُلَّ ذَلِكَ يَقُولُ لَا ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا هِيَ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَعَشْرٌ وَقَدْ كَانَتْ إِحْدَاكُنَّ فِي الْجَاهِلِيَّةِ تَرْمِي بِالْبَعْرَةِ عَلَى رَأْسِ الْحَوْلِ قَالَ حُمَيْدٌ فَقُلْتُ لِزَيْنَبَ وَمَا تَرْمِي بِالْبَعْرَةِ عَلَى رَأْسِ الْحَوْلِ فَقَالَتْ زَيْنَبُ كَانَتْ الْمَرْأَةُ إِذَا تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا دَخَلَتْ حِفْشًا وَلَبِسَتْ شَرَّ ثِيَابِهَا وَلَمْ تَمَسَّ طِيبًا حَتَّى تَمُرَّ بِهَا سَنَةٌ ثُمَّ تُؤْتَى بِدَابَّةٍ حِمَارٍ أَوْ شَاةٍ أَوْ طَائِرٍ فَتَفْتَضُّ بِهِ فَقَلَّمَا تَفْتَضُّ بِشَيْءٍ إِلَّا مَاتَ ثُمَّ تَخْرُجُ فَتُعْطَى بَعَرَةً فَتَرْمِي ثُمَّ تُرَاجِعُ بَعْدُ مَا شَاءَتْ مِنْ طِيبٍ أَوْ غَيْرِهِ سُئِلَ مَالِكٌ مَا تَفْتَضُّ بِهِ قَالَ تَمْسَحُ بِهِ جِلْدَهَا

زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ میں نے ام سلمہ کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہ! میری بیٹی کا شوہر مر گیا ہے، اور اس کی آنکھ میں تکلیف ہے تو کیا ہم اس کو سرمہ لگائیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو یا تین بار فرمایا نہیں نہیں، پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ چار مہینے دس دن تک انتظار کرے اور تم میں سے ایک عورت جاہلیت کے زمانہ میں ایک سال کے بعد مینگنی پھیکنتی تھی (اس کے بعد عدت سے باہرہوتی تھی) حمید کا بیان ہے کہ میں نے زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا کہ یہ مینگنی پھینکنے کا کیا مطلب ہے تو زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بتایا کہ جب کسی عورت کا شوہر مرجاتا تو ایک تنگ کوٹھڑی میں داخل ہوجاتی اور خراب قسم کا کپڑا پہن لیتی اور خوشبو نہیں لگاتی یہاں تک کہ ایک سال گزر جاتا پھر اس کے پاس کوئی چوپایہ گدھا، بکری یا کوئی پرندہ لایا جاتا اور اس پر ہاتھ پھیرتی، بہت کم ایسا ہوتا کہ جس پر وہ ہاتھ پھیرے اور وہ مر نہ جائے پھر وہ باہر نکل آتی اور اس کے پاس لوگ مینگنی لاتے جسے پھینکتی وہ پھر واپس ہوجاتی اور جو کام کرنا چاہتی مثلا خوشبو وغیرہ لگانا تو وہ کرتی، مالک سے کسی نے پوچھا کہ تفتض سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے بتایا کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ اس سے اپنی کھال ملتی تھی۔

یہ حدیث شیئر کریں