غلام کا آزاد عورت سے نکاح
راوی: کثیر بن عبید , محمد بن حرب , زبیدی , زہری , عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ
أَخْبَرَنَا کَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ عَنْ الزُّبَيْدِيِّ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ طَلَّقَ وَهُوَ غُلَامٌ شَابٌّ فِي إِمَارَةِ مَرْوَانَ ابْنَةَ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ وَأُمُّهَا بِنْتُ قَيْسٍ الْبَتَّةَ فَأَرْسَلَتْ إِلَيْهَا خَالَتُهَا فَاطِمَةُ بِنْتُ قَيْسٍ تَأْمُرُهَا بِالِانْتِقَالِ مِنْ بَيْتِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو وَسَمِعَ بِذَلِکَ مَرْوَانُ فَأَرْسَلَ إِلَی ابْنَةِ سَعِيدٍ فَأَمَرَهَا أَنْ تَرْجِعَ إِلَی مَسْکَنِهَا وَسَأَلَهَا مَا حَمَلَهَا عَلَی الِانْتِقَالِ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَعْتَدَّ فِي مَسْکَنِهَا حَتَّی تَنْقَضِيَ عِدَّتُهَا فَأَرْسَلَتْ إِلَيْهِ تُخْبِرُهُ أَنَّ خَالَتَهَا أَمَرَتْهَا بِذَلِکَ فَزَعَمَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ قَيْسٍ أَنَّهَا کَانَتْ تَحْتَ أَبِي عَمْرِو بْنِ حَفْصٍ فَلَمَّا أَمَّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ عَلَی الْيَمَنِ خَرَجَ مَعَهُ وَأَرْسَلَ إِلَيْهَا بِتَطْلِيقَةٍ هِيَ بَقِيَّةُ طَلَاقِهَا وَأَمَرَ لَهَا الْحَارِثَ بْنَ هِشَامٍ وَعَيَّاشَ بْنَ أَبِي رَبِيعَةَ بِنَفَقَتِهَا فَأَرْسَلَتْ زَعَمَتْ إِلَی الْحَارِثِ وَعَيَّاشٍ تَسْأَلُهُمَا الَّذِي أَمَرَ لَهَا بِهِ زَوْجُهَا فَقَالَا وَاللَّهِ مَا لَهَا عِنْدَنَا نَفَقَةٌ إِلَّا أَنْ تَکُونَ حَامِلًا وَمَا لَهَا أَنْ تَکُونَ فِي مَسْکَنِنَا إِلَّا بِإِذْنِنَا فَزَعَمَتْ أَنَّهَا أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَکَرَتْ ذَلِکَ لَهُ فَصَدَّقَهُمَا قَالَتْ فَاطِمَةُ فَأَيْنَ أَنْتَقِلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ انْتَقِلِي عِنْدَ ابْنِ أُمِّ مَکْتُومٍ الْأَعْمَی الَّذِي سَمَّاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي کِتَابِهِ قَالَتْ فَاطِمَةُ فَاعْتَدَدْتُ عِنْدَهُ وَکَانَ رَجُلًا قَدْ ذَهَبَ بَصَرُهُ فَکُنْتُ أَضَعُ ثِيَابِي عِنْدَهُ حَتَّی أَنْکَحَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ فَأَنْکَرَ ذَلِکَ عَلَيْهَا مَرْوَانُ وَقَالَ لَمْ أَسْمَعْ هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ أَحَدٍ قَبْلَکِ وَسَآخُذُ بِالْقَضِيَّةِ الَّتِي وَجَدْنَا النَّاسَ عَلَيْهَا مُخْتَصَرٌ
کثیر بن عبید، محمد بن حرب، زبیدی، زہری، حضرت عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جوانی ہی میں سعد بن زید کی لڑکی جن کی والدہ قیس کی لڑکی ہیں کو تین طلاقیں دے دیں یہ مروان کے امیر ہونے کے زمانہ کی بات ہے اس پر ان کی خالہ فاطمہ بنت قیس نے ان کو حضرت عبداللہ بن عمرو کے گھر سے منتقل ہو جانے کا حکم دیا۔ جب مروان کو اس بات کا علم ہوا تو اس نے ان کو حکم فرمایا کہ اپنے مکان واپس چلے جائیں اور اس جگہ رہیں اور دریافت کیا کہ ان کی عدت پوری ہونے سے قبل وہ گھر چھوڑ جانے کی کیا وجہ تھی؟ انہوں نے کہلوایا کہ میری خالہ حضرت فاطمہ بنت قیس نے مجھے اس بات کا حکم دیا تھا تو حضرت فاطمہ بنت قیس نے فرمایا کہ میں حضرت عمرو بن حفص کے نکاح میں تھی چنانچہ جس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یمن کا امیر مقرر کیا تو حضرت ابوعمرو بھی ان کے ساتھ چلے گئے اور جاتے ہوئے مجھے وہ طلاق بھی بھیج دی جو تین میں سے بچ گئی تھی پھر حارث بن ہشام اور عباس بن ابی ربیعہ کو مجھ کو نفقہ دینے کا کہلا بھیجا میں نے ان دونوں سے دریافت کرایا۔ ابوعمرو نے میرے بارے میں کیا کہا ہے؟ تو کہنے لگے اللہ کی قسم اس کو خرچ تو ایسی صورت میں ملے گا کہ وہ خاتون حمل سے ہو اور وہ ہمارے مکان میں ہماری اجازت کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ پھر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی اور واقعہ عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی ان دونوں کی بات کی تصدیق کی اس پر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں کہاں منتقل ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ابن ام مکتوم کے ہاں منتقل ہو جاؤ۔ جو نابینا ہیں اور جن کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کیا ہے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے ان کے ہاں عدت مکمل کی اور میں اپنے کپڑے اتار دیا کرتی تھی اس لئے کہ وہ دیکھ نہیں سکتے تھے (اتارنے سے مراد اوپر کے کپڑے (چادر وغیرہ) ہیں نہ کہ بالکل برہنہ ہونا) یہاں تک کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کا نکاح حضرت اسامہ بن زید سے فرما دیا لیکن مروان نے ان کی حدیث شریف پر نکیر نہیں فرمائی اس وجہ سے میں تو اس پر عمل کروں گا جس پر کہ لوگوں کو میں نے عمل کرتے ہوئے دیکھا ہے یہ روایت اختصار اور خلاصہ کے ساتھ نقل ہے۔
It was narrated from ‘Aishah that Abu Hudhaifah bin ‘Utbah bin Rabi’ah bin ‘Abd Shams — who was one of those who had been present at Badr with the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم — adopted Salim and married him to his brother’s daughter, Hind bint Al-Walid bin ‘Utbah bin Rabi’ah bin ‘Abd Shams, and he was a freed slave of an Ansari woman — as the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم had adopted Zaid. During the Jahiliyyah, if a man adopted someone, the people would call him his son, and he would inherit from his legacy, until Allah, the Mighty and Sublime, revealed about that: ‘Call them by (the names of) their fathers, that is more just with Allah. But if you know not their fathers’ (names, call them) your brothers in Faith and MawalIkam (your freed slaves).” Then if a person’s father’s name was not known, he would be their freed slave and brother in faith.