اگر کوئی خاتون کسی مرد سے نکاح کا رشتہ بھیجنے والے کے بارے میں دریافت کرے تو اس کو بتلا دیا جائے
راوی: محمد بن سلمہ و حارث بن مسکین , ابن قاسم , مالک , عبداللہ بن یزید , ابوسلمہ بن عبدالرحمن , فاطمہ بنت قیس
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْکِينٍ قِرَائَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ وَاللَّفْظُ لِمُحَمَّدٍ عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ عَنْ مَالِکٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ أَنَّ أَبَا عَمْرِو بْنَ حَفْصٍ طَلَّقَهَا الْبَتَّةَ وَهُوَ غَائِبٌ فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا وَکِيلُهُ بِشَعِيرٍ فَسَخِطَتْهُ فَقَالَ وَاللَّهِ مَا لَکِ عَلَيْنَا مِنْ شَيْئٍ فَجَائَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَکَرَتْ ذَلِکَ لَهُ فَقَالَ لَيْسَ لَکِ نَفَقَةٌ فَأَمَرَهَا أَنْ تَعْتَدَّ فِي بَيْتِ أُمِّ شَرِيکٍ ثُمَّ قَالَ تِلْکَ امْرَأَةٌ يَغْشَاهَا أَصْحَابِي فَاعْتَدِّي عِنْدَ ابْنِ أُمِّ مَکْتُومٍ فَإِنَّهُ رَجُلٌ أَعْمَی تَضَعِينَ ثِيَابَکِ فَإِذَا حَلَلْتِ فَآذِنِينِي قَالَتْ فَلَمَّا حَلَلْتُ ذَکَرْتُ لَهُ أَنَّ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ وَأَبَا جَهْمٍ خَطَبَانِي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَّا أَبُو جَهْمٍ فَلَا يَضَعُ عَصَاهُ عَنْ عَاتِقِهِ وَأَمَّا مُعَاوِيَةُ فَصُعْلُوکٌ لَا مَالَ لَهُ وَلَکِنْ انْکِحِي أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ فَکَرِهْتُهُ ثُمَّ قَالَ انْکِحِي أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ فَنَکَحْتُهُ فَجَعَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِيهِ خَيْرًا وَاغْتَبَطْتُ بِهِ
محمد بن سلمہ و حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، عبداللہ بن یزید، ابوسلمہ بن عبدالرحمن، حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت ابوعمرو بن حفص نے انہیں طلاق بتہ دے دی تو وہ اس وقت حالت سفر میں تھے چنانچہ انہوں نے اپنے وکیل کو جو دے کر حضرت فاطمہ کو دینے کے واسطے روانہ کیا جس وقت وہ لے کر پہنچا تو حضرت فاطمہ خفا ہوگئیں۔ وکیل نے عرض کیا اللہ کی قسم ہمارے ذمہ تمہارا کسی قسم کا کوئی حق نہیں ہے اس پر وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارا خرچہ اس کے ذمہ نہیں ہے پھر حکم فرمایا کہ حضرت ام شریک کے گھر اپنی عدت مکمل کر لے لیکن پھر فرمایا حضرت ام شریک کو تو ہمارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم (چاروں طرف سے) گھیرے رہتے ہیں۔ تم حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے یہاں عدت مکمل کرلو ہاں اگر اپنے کپڑے بھی تم اتار دو گی تو جب بھی کسی قسم کا کوئی حرج نہیں ہے۔ اس لئے کہ وہ ایک نابینا شخص ہے پھر جس وقت تمہاری عدت پوری ہو جائے تو مجھ کو اطلاع دینا۔ فرماتی ہیں کہ جس وقت میری عدت مکمل ہوئی تو میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا اور بتلایا کہ حضرت معاویہ اور ابوجہم نے مجھ کو نکاح کے پیغامات روانہ کئے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جہاں تک ابوجہم کا تعلق ہے تو وہ تو اس قسم کے شخص ہیں جو کہ اپنے کندھے سے لاٹھی نہیں اتارتے (یعنی زیادہ سفر کرتے ہیں کہ لاٹھی ہر وقت ان کے کندھوں پر رہتی ہے یا مطلب یہ ہے کہ وہ خواتین کے ساتھ زیادہ سختی اور مار پیٹ کرتے ہیں) اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تو کچھ بھی موجود نہیں ہے۔ البتہ تم حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے شادی کر لو۔ چنانچہ میں نے ان سے نکاح کر لیا اور اس قدر بھلائی مجھ کو ملی کہ مجھ سے لوگ رشک کرنے لگے۔
It was narrated that Abu Hurairah said: “A man of the Ansar came to the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم and said: ‘I have married a woman.’ He said: ‘Did you look at her? For there is something in the eyes of the An (Sahih)
Abu ‘Abdur-Rahman (An-Nasa’i) said: I found this Hadith in another place, from Yazid bin Kaisan, that Jabir bin ‘Abdullah narrated it, and what is correct is Abu Hurairah.