دوزخ سے جنت میں پہنچأئے جانے والے لوگ جنت میں " جہنمی " کہلائیں گے
راوی:
وعن أنس أن النبي الله صلى الله عليه و سلم قال : " ليصيبن أقواما سفع من النار بذنوب أصابوها عقوبة ثم يدخلهم الله الجنة بفضله ورحمته فيقال لهم : الجهنميون " . رواه البخاري
(3/213)
5585 – [ 20 ] ( صحيح )
وعن
عمران بن حصين قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " يخرج أقوام من النار بشفاعة محمد فيدخلون الجنة ويسمون الجهنميين " . رواه البخاري
وفي رواية : " يخرج قوم من أمتي من النار بشفاعتي يسمون الجهنميين "
(3/214)
5586 – [ 21 ] ( متفق عليه )
وعن عبد الله بن مسعود قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إني لأعلم آخر أهل النار خروجا منها وآخر أهل الجنة دخولا رجل يخرج من النار حبوا . فيقول الله : اذهب فادخل الجنة فإن لك مثل الدنيا وعشرة أمثالها . فيقول : أتسخر مني – أو تضحك مني – وأنت الملك ؟ " ولقد رأيت رسول الله صلى الله عليه و سلم ضحك حتى بدت نواجذه وكان يقال : ذلك أدنى أهل الجنة منزلة . متفق عليه
(3/214)
5587 – [ 22 ] ( صحيح )
وعن
أبي ذر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إني لأعلم آخر أهل الجنة دخولا الجنة وآخر أهل النار خروجا منها رجل يؤتى به يوم القيامة فيقال : اعرضوا عليه صغار ذنوبه وارفعوا عنه كبارها فتعرض عليه صغار ذنوبه وفيقال : عملت يوم كذا وكذا وكذا وكذا وعملت يوم كذا وكذا كذا وكذا ؟ فيقول : نعم . لا يستطيع أن ينكر وهو مشفق من كبار ذنوبه أن تعرض عليه . فيقال له فإن لك مكان كل سيئة حسنة . فيقول : رب قد عملت أشياء لا أراها ههنا " وقد رأيت رسول الله صلى الله عليه و سلم ضحك حتى بدت نواجذه . رواه مسلم
" اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ " مسلمانوں کے کتنے ہی گروہ ایسے ہوں گے جنہیں ان کے ان گناہوں کی پاداش میں جو انہوں نے کئے ہونگے دوزخ کی آگ کے شعلے جھلس دیں گے اور ان کے حلیوں کو بدل دیں گے اور پھر اللہ تعالیٰ اپنے خاص فضل وکرم اور رحمت کے تحت ان کو (دوزخ سے چھٹکارا دلا کر ) جنت میں پہنچائے گا اور ان لوگوں کو جہنمی " کہا جائے گا ۔ " ( بخاری )
تشریح :
" اور ان لوگوں کو جہنمی کہا جائے گا " کا مطلب یہ ہے کہ جنت میں ان لوگوں کو اس اعتبار سے کہ وہ پہلے دوزخ میں گئے ہوں گے اور وہاں سے جنت میں آئے ہوں گے " جہنمی " کے نام سے تعبیر اور یاد کیا جائے گا لیکن ان کو جنت میں جہنمی کا نام دینا ان کی تحقیر وتذلیل کے لئے نہیں ہوگا ان کو خوش کرنے اور نعمت یاد دلانے کے طور پر ہوگا تاکہ وہ لوگ شکر نعمت کریں اور وہ شکر نعمت انہیں دوزخ سے نجات ملنے اور جنت میں پہنچ جانے کی مسرت وشادمانی کا احساس دلاتا رہے ۔
١٦ " اور حضرت عمران بن حصین کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " بہت سے لوگوں کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے نتیجہ میں دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کیا جائے گا اور ان کا نام " جہنمی " رکھا جائے گا ۔ " ( بخاری ) اور ایک روایت میں یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " میری امت میں کے بہت سے لوگ میری شفاعت کے نتیجہ میں دوزخ سے نکالے جائیں گے اور ان کا نام " جہنمی " رکھا جائے گا ۔ "
١٧ " اور حضرت عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ! میں یقینا اس شخص کو جانتا ہوں جو سب سے آخر میں دوزخ سے نکالا جائے گا اور سب سے آخر میں جنت میں پہنچایا جائے گا یہ ایک شخص ہوگا جو گھٹنوں کے بل چل کر دوزخ سے باہر آئے گا ، اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے کأ کہ جا اور جنت میں داخل ہو جا، وہ شخص جب وہاں ( جنت کے اندر یا جنت کے دروازے پر ) پہنچے گا تو اس کو جنت اس حال میں دکھائی دے گی کہ گویا وہ بالکل بھر گئی ہے اور اس میں مزید کسی کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے ) وہ شخص عرض کرے گا کہ میرے لئے کوئی جگہ نظر نہیں آرہی ہے ؟ ) اللہ تعالیٰ فرمائے گا ! تو جا اور جنت میں داخل ہو ، وہاں تیرے لئے دنیا ( کی مسافت ) کے بقدر اور اس سے دس گنی مزید جگہ تیرے لئے ( مخصوص کر دی گی ) ہے ! وہ شخص ( انتہائی تحیر واستعجاب کے عالم میں ) کہے گا کہ ( پروردگار !) کیا آپ مجھ سے مذاق کررہے ہیں یا یہ کہے گا کہ آپ مجھ سے ۔۔۔ ہنسی کر رہے ہیں حالانکہ آپ تو ( بادشاہوں کے بھی ) بادشاہ ہیں ! ؟ " حضرت ابن مسعود کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ بات فرما کر ہنسے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کچلیاں نظر آنے لگیں ۔ " اور کہا جاتا تھا کہ یہ شخص جنیتوں میں سب سے چھوٹے درجہ کا آدمی ہوگا ۔ " (بخاری ومسلم )
١٨ " اور حضرت ابوذر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا !میں یقینا اس شخص کو جانتا ہوں جو سب سے آخر میں جنت میں داخل کیا جائے گا اور سب سے آخر میں جوزخ سے نکالا جائے گا ، یہ ایک ایسا شخص ہوگا جس کو قیامت کے دن جب ( پروردگار کے حضور میں ) پیش کیا جائے گا تو ( فرشتوں سے ) کہا جائے گا کہ اس کے چھوٹے گناہوں پر مشتمل فرد جرم اس کے آگے کرد اور اس کے بڑے بڑے گناہوں کی فرد جرم ) کو ابھی ہی اس پر ظاہر نہ کر و ۔ چنانچہ اس کے چھوٹے چھوٹے گناہوں کی فرد جرم اس کے آگے کر دے جائے گی اور پھر اس سے کہا جائے کہ ( بتا ) کیا تو نے فلاں فلاں دن فلاں فلاں ( برے کام کئے تھے اور فلاں فلاں دن طاعت کو ترک کیا تھا ، وہ اقرار کرے گا کہ ہاں ( میں نے فلاں فلاں دن اس اس طرح کیا تھا ) وہ اپنے ان گناہوں سے انکار نہیں کر سکے گا کیونکہ وہ اپنے بڑے بڑے گناہوں کے خوف میں مبتلا ہوگا ( اور سوچے گا ، اگر کہیں ان کے بڑے گناہوں کی فرد جرم سامنے آگئی تو پھر بہت سی سخت پرستش ورمواخذہ سے دوچار ہونا پڑے گا پس اس سے کہا جائے گا کہ ( جاہم نے نہ صرف تجھے معاف کیا بلکہ ہماری خصوصی رحمت اور کمال فضل وکرم کے تحت تجھے ہر برائی کے بدلہ میں ایک نیکی عطا کی جاتی ہے وہ شخص کہے گا کہ میرے پروردگار ! میں نے اور بھی بہت سے برے کام (یعنی بڑے گناہ ) کئے تھے جو مجھے یہاں ( فرد جرم میں ) نظر ہی نہیں آرہے ہیں حضرت ابوذر کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ بیان کر کے ہنس پڑے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کچلیاں نظر آنے لگیں ۔ " ( مسلم )