جنّت کے اس دروازے کی وسعت جس سے اہل اسلام داخل ہوں گے
راوی:
وعن سالم عن أبيه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " باب أمتي الذين يدخلون منه الجنة عرضه مسيرة الراكب المجود ثلاثا ثم إنهم ليضغطون عليه حتى تكاد مناكبهم تزول " . رواه الترمذي وقال هذا حديث ضعيف وسألت محمد بن إسماعيل عن هذا الحديث فلم يعرفه وقال : خالد بن أبي بكر يروي المناكير
" اور حضرت سالم تابعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے والد محترم (حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ! جنّت کے جس دروازے سے میری امّت کے لوگ داخل ہوں گے اس کی چوڑائی اس سوار کی تین مسافت کے بقدر ہوگی جو گھوڑے کو تیز دوڑانا خوب جانتا ہے پھر بھی وہ لوگ ( یعنی میری امّت کے جنّتی) اس دروازے سے داخل ہوتے نہایت تنگی محسوس کریں گے یہاں تک کہ ان کے کاندھے ایک دوسرے سے رگڑ کھائیں گے یعنی باوجودیکہ وہ دروازہ اس قدر چوڑا ہوگا مگر جب اہل اسلام ہجوم در ہجوم اندر داخل ہوں گے تو وہ دروازہ بھی تنگ معلوم ہوگا اور وہ لوگ ایک دوسرے کے کاندھے سے رگڑ کھاتے ہوئے بڑی دشواری کے ساتھ دروازہ پار کریں گے ۔" اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے ، جب میں نے حضرت محمد بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ سے اس حدیث کے روای کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ میں نہیں جانتا اور فرمایا کہ خالد بن ابی بکر منکر روایتیں بیان کرتے ہیں۔"
تشریح :
اس سوار کی تین ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مسافت کے بقدر" میں" تین" مراد سے یا تو تین راتوں کی مسافت ہے یاتین سال کی اور یہی ( تین سال کی مسافت مراد لینا، زیادہ صحیح ہے کیونکہ اس میں زیادہ مبالغہ ہے ، پھر تین سال کے مسافت " سے بھی کثرت " مراد لینا پڑے گی تاکہ یہ روایت اس حدیث کے مخالف نہ پڑے جس میں یہ فرمایا گیا ہے کہ جنّت کے دروازوں میں سے ہردروازے کے دونوں بازؤں کا درمیانی فاصلہ چالیس سال کی مسافت کے بقدر ہے ، اور اگر " تین سال کو اس کے حقیقی مفہوم پر محمول کرتے ہوئے " کثرت" مراد نہ لی جائے تو پھر یہ کہا جائے گا کہ ہوسکتا ہے کہ پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعہ اس دروازے کی چوڑائی کم بتائی گئی ہو جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین سال کی مسافت کے فاصلہ سے تعبیر فرمایا اور پھر بعد میں اس کی زیادہ سے زیادہ چوڑائی کا علم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کیا گیا ہو، جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے " چالیس سال کی مسافت " کے ذریعہ واضع فرمایا ایک بات یہ بھی کہی جاسکتی ہے کہ ان دونوں روایتوں کو جنّت میں داخل ہونے والوں کے اعتبار سے مختلف چوڑائی معلوم ہوگی کہ جس دروازے کے ذریعہ کم لوگ داخل ہوں گے وہ بہت زیادہ چوڑا معلوم ہوگا اور جس دروازے سے بہت زیادہ تعداد میں لوگ داخل ہوں گے وہ بہت زیادہ چوڑا ہوجانے کے باوجود کم چوڑا معلوم ہوگا
ترمذی نے اس روایت کو ضعیف کہا ہے ، اور مصابیح میں ہے کہ یہ " روایت ضعیف منکر ہے!نیزمصابیح کے شارح نے یہ وضاحت کی ہے کہ اس حدیث کو منکر اس لئے قرار دیا گیا ہے کہ یہ حدیث ان صحیح احادیث کے خلاف ہے جو مذکورہ مضمون سے متعلق منقول ہیں پھر ترمذی نے اس حدیث کے ضعیف ہونے پر حضرت محمد بن اسماعیل رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ یعنی امام بخاری سے استدلال کیا ہے کہ انہوں نے اس حدیث سے اپنی ناواقفیت کا اظہار کیا اور یہ اصول ہے کہ جب کوئی ایسا عالم حدیث امام فن جو حدیث کے تمام طرق واسناد کی کامل بصیرت اور پوری معلومات رکھتا ہو، یہ کہے کہ میں فلاں حدیث کی واقفیت نہیں رکھتا تو یہ اس بات کی دلیل ہوتی ہے کہ وہ حدیث ضعیف ہے علاوہ ازیں امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے اس قول کے یخلد ابن ابی بکر ، منکر روایتیں بیان کرتے ہیں کے بارے میں سید جمال الدین نے کہا ہے کہ لفظ یخلد صاحب مشکوٰۃ کا سہو ہے اصل نام خالد ابن ابی بکر ہے کیونکہ ترمذی میں خالد ابن ابی بکر ہی منقول ہے اور اسماء رجال کی کتابوں میں بھی اسی طرح ہے۔