اہل جنت میں اولاد کی خواہش
راوی:
وعن أبي سعيد قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " أدنى أهل الجنة الذي له ثمانون ألف خادم واثنتان وسبعون زوجة وتنصب له قبة من لؤلؤ وزبرجد وياقوت كما بين الجابية إلى صنعاء "
وبهذا الإسناد قال ( ضعيف )
: " ومن مات من أهل الجنة من صغير أو كبير يردون بني ثلاثين في الجنة لا يزيدون عليها أبدا وكذلك أهل النار "
وبهذا الإسناد قال ( ضعيف )
: " إن عليهم التيجان أدنى لؤلؤة منها لتضيء ما بين المشرق والمغرب "
وبهذا الإسناد قال ( صحيح لغيره )
: " المؤمن إذا اشتهى الولد في الجنة كان حمله ووضعه وسنه في ساعة كما يشتهي " وقال إسحاق بن إبراهيم في هذا الحديث : إذا اشتهى المؤمن في الجنة الولد كان في ساعة ولكن لا يشتهي ( قول اسحاق ليس من الحديث )
رواه الترمذي وقال : هذا حديث غريب . روى ابن ماجه الرابعة والدارمي الأخيرة
" اور حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " جنتیوں میں سب سے کم مرتبہ کا جو شخص ہوگا اس کے اسی ہزار خادم اور بہتربیویاں ہوں گی ، (جن میں سے دو بیویاں دنیا کی عورتوں میں سے اور ستربیویاں حوران جنت میں سے ہوں گی) اس لئے جو خیمہ کھڑا کیا جائے گا وہ موتی زمرد اور یاقوت سے (بنا ہوگا یا یہ کہ ان چیزوں سے مرصع ومزین ) ہوگا۔" اسی اسناد کے ساتھ (حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل ہونے والی ) ایک روایت میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " وہ لوگ جن کو جنت میں داخل کیا جائے گا دنیا میں خواہ چھوٹی عمر میں مریں یا بڑی عمر میں جنت کے اندر تیس تیس سال کی عمر کے ہو کر جائیں گے اور وہ کبھی بھی اس عمر سے زیادہ کے نہیں ہوں گے ، یہی معاملہ دوزخیوں کا بھی ہوگا۔" اور اسی اسناد کے ساتھ ایک روایت میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جنتیوں کے سروں پر جو تاج ہوگا اس کا سب سے معمولی موتی بھی ایسا ہوگا کہ مشرق سے مغرب تک کو روشن ومنور کردے ۔" اور اسی اسناد کے ساتھ ایک روایت میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " اگر (بالفرض ) کوئی مسلمان جنت میں اولاد کا خواہش مند ہوگا تو (اس کی خواہش اس طرح پوری کی جائے گی کہ) بچہ کا حمل قرار پانا، اس کا پیدا ہونا اور اس کا انتہائی عمر (یعنی تیس سال کی عمر ) تک پہنچنا سب کچھ ایک ساعت میں عمل پذیر ہوجائے گا ۔" حضرت ابواسحاق بن ابراہیم اس آخری روایت کے بارے میں کہتے ہیں کہ اگر کوئی مومن جنت میں اولاد کا خواہش مند ہوگا تو اس کی خواہش ایک ساعت میں پوری تو ہوجائے گی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسی خواہش کوئی بھی نہیں کرے گا اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ ابن ماجہ نے چوتھی روایت نقل کی ہے اور دارمی نے صرف آخرکا حصہ (جوابواسحٰق سے منقول ہے) نقل کیا ہے۔"
تشریح :
یہی معاملہ دوزخیوں کا بھی ہوگا ۔ " کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اہل جنت تیس تیس سال کی عمر کے ہو کر جنت میں داخل ہوں گے خواہ وہ دنیا میں چھوٹی عمر میں مرے ہوں یا بڑی عمر میں، اسی طرح دوزخی بھی تیس تیس سال ہی کی عمر کے ہو کر دوزخ میں جائیں گے اور جنتیوں کی طرح وہ دوزخی بھی ہمیشہ تیس ہی سال کی عمر کے رہیں گے واضح رہے کہ اہل جنت اور اہل دوزخ کے لئے ہمیشہ کی عمر تیس سال مقرر ہونا شاید اس لئے ہو کہ جو مستحق چین وراحت ہوں انہیں کامل راحت نصیب ہوسکے اور جو مستحق عذاب ہوں انہیں کامل عذاب ملے، پس جس طرح اہل جنت دارالقرار میں ہمیشہ ہمیشہ اپنی اس بھری عمر کے ساتھ راحت وچین کا پورا سکھ اٹھاتے رہیں گے اسی طرح اہل دوزخ دار البوار میں ہمیشہ ہمیشہ اپنی بھری عمر کے ساتھ عذاب وسختی کا پورا دکھ جھلیتے رہیں گے ۔