حوران جنت کا ذکر
راوی:
عن أبي سعيد عن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " إن الرجل في الجنة ليتكئ في الجنة سبعين مسندا قبل أن يتحول ثم تأتيه امرأة فتضرب على منكبه فينظر وجهه في خدها أصفى من المرآة وإن أدنى لؤلؤة عليها تضيء ما بين المشرق والمغرب فتسلم عليه فيرد السلام ويسألها : من أنت ؟ فتقول : أنا من المزيد وإنه ليكون عليها سبعون ثوبا فينفذها بصره حتى يرى مخ ساقها من وراء ذلك وإن عليها من التيجان أن أدنىلؤلؤة منها لتضيء ما بين المشرق والمغرب " . رواه أحمد
" اور حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جنتی مرد جزا یافتہ شخص جنت میں ستر مسندوں کا تکیہ لگا کر بیٹھے گا قبل اس کے کہ ایک پہلو سے دوسرا پہلوبدلے پھر جنت کی عورتوں میں سے ایک عورت اس کے پاس آئے گی اور (اس کو اپنی طرف متوجہ ومائل کرنے کے لئے) اس کے کاندھے پر ٹھوکا دے گی ، وہ مرد اس طرف متوجہ ہوگا اس کے رخساروں میں جو آئینہ سے زیادہ صاف وروشن ہوں گے اپنا چہرہ دیکھے گا اور حقیقت یہ ہے کہ اس عورت کے (کسی زیور یا تاج میں جڑا ہوا) ایک معمولی ساموتی بھی (اس قدر بیش قیمت اور نظر کو خیرہ کرنے والا ہوگا کہ) اگر وہ دنیا میں آجائے تو مشرق سے مغرب تک (کی ہر چیز) کو روشن ومنور کردے ۔ بہرحال وہ عورت اس مرد کو سلام کرے گی اور مرد اس کے سلام کا جواب دے گا اور پوچھے گا تم کون ہو؟ وہ کہے گی کہ میں " مزید" میں سے ہوں ۔صورت حال یہ ہوگی کہ اس عورت کے جسم پر ستّر (رنگ برنگ ) کپڑوں کا ( تہ درتہ لباس ہوگا اور اس مرد کی نظر عورت کے اس لباس میں سے بھی پار ہوجائے گی (یعنی وہ لباس کے نیچے چھپے ہوئے عورت کے حسن وجمال اور اس کے جسم کی نزاکت ولطافت کانظارا کرے گا) یہاں تک کہ وہ مرد اس عورت کی پنڈلی کے گودے کو لباس کے پیچھے سے دیکھے گا (گویا اس کی نگاہ اتنی تیز اور صاف ہوگی کہ کوئی بھی چیز اس کے ) آگے دیکھنے میں رکاوٹ نہیں بنے گی ) اور اس عورت کے سر پر تاج رکھے ہونگے اور ان تاجوں کا معمولی ساموتی بھی ایسا ہوگا کہ اگر وہ (دنیا میں آجائے ) تو مشرق سے مغرب تک (کی ہر چیز) کو روشن ومنور کردے۔" (احمد)
تشریح :
" قبل اس کے کہ وہ ایک پہلو سے دوسرا پہلو بدلے " کے ذریعہ اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ اس مرد کے پہلوؤں میں اتنے زیادہ گاؤ تکئے رکھے ہونگے کہ وہ ایک ہی پہلو پر بیٹھا ہوا دوسرا پہلو بدلنے تک طرح طرح کے ستّر تکیوں سے ٹیک لگائے گا۔" میں ، مزید ، میں سے ہوں ۔" یعنی ان نعمتوں میں سے ایک نعمت ہوں جن کا حق تعالیٰ نے تمہاری نیکو کاریوں کے بدلہ وجزاء کے علاوہ خصوصی انعام کے طور پر مزید عطا کرنے کا وعدہ کیا تھا یہ گویا قرآن کریم کی اس آیت کی طرف اشارہ ہوگا کہ :
(لَهُمْ مَّا يَشَا ءُوْنَ فِيْهَا وَلَدَيْنَا مَزِيْدٌ) 50۔ق : 35)
" ان (اہل ایمان ) کو جنت میں وہ کچھ ملے گا جو ہم (جزاء کے طور پر) دینا چاہیں گے اس کے علاوہ ہمارے پاس اور بھی (خصوصی انعام ) ہیں اس مضمون کی ایک آیت یہ بھی ہے :
(لِلَّذِيْنَ اَحْسَ نُوا الْحُسْنٰى وَزِيَادَةٌ) 10۔یونس : 26)
" نیک کاروں کے لئے جنت ہیں مزید برآں۔"
ویسے مفسرین نے اس آیت میں زیادۃ (مزیدا برآں) کی تفسیر'حق تعالیٰ کا دیدار " کیا ہے ، تاہم یہ اس بات کے منافی نہیں ہے کہ ان مزید نعمتوں (خصوصی انعام) میں سے ایک نعمت بعض حوریں بھی ہیں ، رہی یہ بات کہ حوران جنت کی اس نعمت کو " مزید یا زیادہ سے کیوں تعبیر فرمایا گیا ہے تو وجہ یہ ہے کہ وہ فضل الٰہی سے بندوں کو ان نیک اعمال کی جزاء میں عطا کی جائیں گی، اب وہ جنت عطاہونے کے بعد پھر بندوں کو جو کچھ ملے گا وہ خصوصی عنایت وانعام اور فضل بر فضل ہوگا اور ظاہر ہے کہ اصل اجر وبدلہ سے زائد چیز ہوگی ۔