رشک اور حسد
راوی: سلیمان بن داؤد , ابن وہب , ابن جریج , عبداللہ بن کثیر , محمد بن قیس
أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ قَالَ أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ کَثِيرٍ أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ قَيْسٍ يَقُولُ سَمِعْتُ عَائِشَةَ تَقُولُ أَلَا أُحَدِّثُکُمْ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَنِّي قُلْنَا بَلَی قَالَتْ لَمَّا کَانَتْ لَيْلَتِي انْقَلَبَ فَوَضَعَ نَعْلَيْهِ عِنْدَ رِجْلَيْهِ وَوَضَعَ رِدَائَهُ وَبَسَطَ إِزَارَهُ عَلَی فِرَاشِهِ وَلَمْ يَلْبَثْ إِلَّا رَيْثَمَا ظَنَّ أَنِّي قَدْ رَقَدْتُ ثُمَّ انْتَعَلَ رُوَيْدًا وَأَخَذَ رِدَائَهُ رُوَيْدًا ثُمَّ فَتَحَ الْبَابَ رُوَيْدًا وَخَرَجَ وَأَجَافَهُ رُوَيْدًا وَجَعَلْتُ دِرْعِي فِي رَأْسِي فَاخْتَمَرْتُ وَتَقَنَّعْتُ إِزَارِي وَانْطَلَقْتُ فِي إِثْرِهِ حَتَّی جَائَ الْبَقِيعَ فَرَفَعَ يَدَيْهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ وَأَطَالَ الْقِيَامَ ثُمَّ انْحَرَفَ وَانْحَرَفْتُ فَأَسْرَعَ فَأَسْرَعْتُ فَهَرْوَلَ فَهَرْوَلْتُ فَأَحْضَرَ فَأَحْضَرْتُ وَسَبَقْتُهُ فَدَخَلْتُ وَلَيْسَ إِلَّا أَنْ اضْطَجَعْتُ فَدَخَلَ فَقَالَ مَا لَکِ يَا عَائِشُ رَابِيَةً قَالَ سُلَيْمَانُ حَسِبْتُهُ قَالَ حَشْيَا قَالَ لَتُخْبِرِنِّي أَوْ لَيُخْبِرَنِّي اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي فَأَخْبَرْتُهُ الْخَبَرَ قَالَ أَنْتِ السَّوَادُ الَّذِي رَأَيْتُ أَمَامِي قُلْتُ نَعَمْ قَالَتْ فَلَهَدَنِي لَهْدَةً فِي صَدْرِي أَوْجَعَتْنِي قَالَ أَظَنَنْتِ أَنْ يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْکِ وَرَسُولُهُ قَالَتْ مَهْمَا يَکْتُمْ النَّاسُ فَقَدْ عَلِمَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَإِنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام أَتَانِي حِينَ رَأَيْتِ وَلَمْ يَکُنْ يَدْخُلُ عَلَيْکِ وَقَدْ وَضَعْتِ ثِيَابَکِ فَنَادَانِي فَأَخْفَی مِنْکِ فَأَجَبْتُهُ وَأَخْفَيْتُهُ مِنْکِ وَظَنَنْتُ أَنَّکِ قَدْ رَقَدْتِ فَکَرِهْتُ أَنْ أُوقِظَکِ وَخَشِيتُ أَنْ تَسْتَوْحِشِي فَأَمَرَنِي أَنْ آتِيَ أَهْلَ الْبَقِيعِ فَأَسْتَغْفِرَ لَهُمْ خَالَفَهُ حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ فَقَالَ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْکَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ قَيْسٍ
سلیمان بن داؤد ، ابن وہب، ابن جریج، عبداللہ بن کثیر، حضرت محمد بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے سنا۔ انہوں نے فرمایا کیا میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اور اپنا حال بیان نہ کروں۔ ہم نے عرض کیا کیوں نہیں بیان فرمائیں۔ انہوں نے کہا میری ایک رات میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کروٹ لی اور اپنے پاؤں مبارک کے نزدیک جوتے رکھے اور چادر اٹھائی اپنا سر مبارک سرہانے پر پھیلایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس قدر دیر ٹھہرے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خیال فرمایا کہ مجھ کو نیند آ گئی اس کے بعد خاموشی سے جوتے پہن لئے اور جلدی سے چادر لی اور دروزہ کھولا آہستہ سے اور پھر باہر نکل گئے پھر آہستہ سے دروازہ بند کر دیا۔ میں نے بھی جلدی سے دوپٹہ اوڑھا۔چادر اوڑھی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے پیچھے چل دی۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنت البقیع (نامی قبرستان) میں تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین مرتبہ ہاتھ اٹھائے اور میں دیر تک کھڑی رہی۔ پھر میں واپس آئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیز چلے میں بھی تیز چلی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جلدی چلے میں بھی جلدی چلی میں آگے کی جانب نکل کر مکان کے اندر داخل ہوئی اور میں لیٹی ہوئی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہنچے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے عائشہ صدیقہ تم کو کیا ہو گیا ہے۔ تمہارا پیٹ پھولا ہوا ہے یا فرمایا تمہارا سانس چڑھ گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم بتلاؤ ورنہ اللہ تعالیٰ مطلع فرما دے گا جو کہ لطیف اور خبردار ہے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر میرے والدین قربان ہو جائیں۔ پھر میں نے تمام حالت بیان کی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم ہی تھی میں کہتا تھا کہ یہ میرے سامنے کون آدمی جا رہا ہے۔ میں نے عرض کیا جی ہاں میں تھی۔ یہ بات سن کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے سینے میں ایک مکا رسید کیا جس کی وجہ سے میرے سینہ میں درد ہو گیا اور فرمایا تم نے یہ خیال کیا کہ اللہ اور رسول تم پر ظلم کریں گے کہ تمہارے نمبر پر میں اپنی دوسری اہلیہ کے پاس جاؤں گا۔ میں نے کہا لوگ کس حد تک چھپائیں گے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مطلع فرمادیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جی ہاں حضرت جبرائیل علیہ السلام میرے پاس تشریف لائے اور وہ تمہارے پاس نہ تشریف لا سکے کیونکہ تم اس وقت برہنہ تھیں پھر آہستہ سے انہوں نے مجھ کو آواز دی چنانچہ میں پھر گیا اور میں تم سے پوشیدہ طریقہ سے گیا اس لئے کہ مجھ کو اس بات کا خیال ہوا کہ تم کو نیند آ گئی ہے اور مجھ کو تم کو بیدار کرنا ناگوار اور برا محسوس ہوا۔ مجھ کو خوف ہوا کہ تم کو وحشت نہ ہو (تنہا رہنے سے) پھر جبرائیل علیہ السلام نے مجھ کو حکم فرمایا کہ میں بقیع (قبرستان) پہنچ جاؤں اور جو لوگ وہاں پر مدفون ہیں ان کے واسطے میں دعا مانگوں۔
‘Aishah said: “Shall I not tell you about the Prophet صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم and I?” We said: “Yes.” She said: “When it was my night, he came in, placed his shoes by his feet, lay down his Rida’ (upper garment), and spread his Izar (lower garment) on his bed. As soon as he thought that I had gone to sleep, he put his shoes on slowly and picked up his Rida’ slowly. Then he opened the door slowly, went out and shut it slowly. I put my garment over my head, covered myself and put on my Izar (lower garment), and I set out after him until he came to Al-Baqi’, raised his hands three times and stood there for a long time. Then be left and I left, he hurried and I hurried, he ran and I ran, and I got there before him and entered (the house). I had only just laid down when he came in and said: ‘‘Aishah, why are you out of breath?’ (one of the reporters) Sulaiman said: I thought he (Ibn Wahb) said: ‘short of breath.’ He said: ‘Either you tell me or the All- Aware, All-Knowing will tell me.’ I said: ‘Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم, may my father and mother be sacrificed for you;’ and I told him the story. He said: ‘You were the black shape I saw in front of me?’ I said: ‘Yes.” She said: “He gave me a shove in the chest that hurt me and said: ‘You thought that Allah and His Messenger صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم would be unfair to you.” She said: “Whatever people conceal, Allah, the Mighty and Sublime, knows it.’ He said: ‘Yes.’ He said: ‘Jibril came to me when you saw (me leave) but he did not enter upon you because you have taken off your garments. So he called me but he concealed himself from you, and I answered him but I concealed it from you. I thought that you had gone to sleep and I did not want to wake you and I was afraid that you would feel lonely. He told me to go to Al-Baqi’ and pray for forgiveness for them.” Hajjaj bin Muhammad contradicted him (Ibn Wahb), he said: “From Ibn Juraij, from Ibn Abi Mulaikah, from Muhammad bin Qais:” (Sahih)