دوزخ کی چار دیواری :
راوی:
وعن أبي سعيد الخدري عن النبي صلى الله عليه و سلم قال :
لسرادق النار أربعة جدر كثف كل جدار مسيرة أربعين سنة " . رواه الترمذي
وعنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " لو أن دلوا من غساق يهراق في الدنيا لأنتن أهل الدنيا " . رواه الترمذي
وعن ابن عباس أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قرأ هذه الآية : ( اتقوا الله حق تقاته ولا تموتن إلا وأنتم مسلمون )
قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " لو أن قطرة من الزقوم قطرات في دار الدنيا لأفسدت على أهل الأرض معايشهم فكيف بمن يكون طعامه ؟ " رواه الترمذي وقال : هذا حديث حسن صحيح
اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دوزخ کے احاطہ کے لئے چار دیواریں ہوں گی جن میں سے ہردیوار کی چوڑائی چالیس برس کی مسافت کے برابر ہوگی ۔ (ترمذی)
١٨ اور حضرت ابوسعید کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دوزخیوں کے زخموں سے جو زرد پانی بہے گا (یعنی خراب خون اور پیپ ) اگر اس کا ڈول بھر کر دنیا میں انڈیل دیا جائے تو یقینا تمام دنیا والے سڑجائیں ۔" (ترمذی)
١٩ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت (يٰ اَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِھ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ ١٠٢ ) 3۔ آل عمران : 102) تلاوت فرمائی اور پھر فرمایا اگر (دوزخ کے ) زقوم یعنی تھوہر کے درخت کا ایک قطرہ بھی اس دنیا کے گھر میں ٹپک پڑے تو یقینا دنیاوالوں کے سامان زندگی کو تہس نہس کردے پھر (سوچو) اس شخص کا کیا حال ہوگا جس کی خوراک ہی زقوم ہوگی ۔ اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔
تشریح :
حق تقاتہ (جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے ) کا مطلب یہ ہے، واجبات کو بجا لانا اور سیأات سے پرہیز کرنا ۔ حضرت ابن مسعود نے ان الفاظ کی تفسیریوں بیان کی ہے کہ ۔
ہو ان یطاع فلا یعصی ویشکر فلایکفر ویذکر فلا ینسی۔
وہ (اللہ سے ڈرنے کا حق ) یہ ہے کہ اس کی اطاعت و فرمانبرداری کی جائے اور کسی حال میں اس کی نافرمانی نہ کی جائے اور اس کا شکر ادا کیا جائے ، اور کسی بھی حال میں کفران نعمت نہ کیا جائے ، اس کو یاد کیا جائے اور کسی بھی حال میں اس کو بھولا نہ جائے ۔
حاکم نے یہ تفسیر ووضاحت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کی ہے ، اسی طرح ابن مردویہ اور ابن حاتم نے بھی اور محدثین نے اس کو صحیح قرار دیا ہے ، بہرحال اگر یہ الفاظ حق تقاتہ کمال تقویٰ کو بیان کرنے کے لئے ہیں (یعنی یہ کہا جائے کہ " حق تقاتہ " سے مراد کمال تقویٰ ہے ) تو پھر کوئی اشکال ہی نہیں ہوگا اور اگر ان الفاظ کو اصل تقویٰ کی تعبیر قرار دیا جائے تو پھر یہ کہا جائے گا کہ یہ آیت قرآن ہی کی اس دوسری آیت (فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ) 64۔ التغابن : 16) کے ذریعہ منسوخ ہے کیونکہ اصل تقویٰ یعنی حق تعالیٰ سے اس کے مرتبہ کے لائق حیثیت بھلا کون بشر اختیار کرسکتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت کرنے کے بعد جو مضمون ارشاد فرمایا وہ اس آیت کے ساتھ کیا مناسبت رکھتا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دراصل تقوی ، عذاب دوزخ سے سلامت ومحفوظ رکھنے کا سبب ہے، اور تقویٰ اختیار نہ کرنا گویا عذاب دوزخ میں گرفتار ہونا ہے پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مناسبت سے دوزخ کے بعض عذاب کا ذکر کرنا مناسب سمجھا ۔