دوزخیوں کی حالت :
راوی:
وعن أبي الدرداء قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " يلقى على أهل النار الجوع فيعدل ما هم فيه من العذاب فيستغيثون فيغاثون بطعام من ضريع لا يسمن ولا يغني من جوع فيستغيثون بالطعام فيغاثون بطعام ذي غصة فيذكرون أنهم كانوا يجيزون الغصص في الدنيا بالشراب فيستغيثون بالشراب فيرفع إليهم الحميم بكلاليب الحديد فإذا دنت من وجوههم شوت وجوههم فإذا دخلت بطونهم قطعت ما في بطونهم فيقولون : ادعوا خزنة جهنم فيقولون : ألم تك تأتيكم رسلكم بالبينات ؟ قالوا : بلى . قالوا : فادعوا وما دعاء الكافرين إلا في ضلال " قال : " فيقولون : ادعوا مالكا فيقولون : يا مالك ليقض علينا ربك " قال : " فيجيبهم إنكم ماكثون " . قال الأعمش : نبئت أن بين دعائهم وإجابة مالك إياهم ألف عام . قال : " فيقولون : ادعوا ربكم فلا أحد خير من ربكم فيقولون : ربنا غلبت علينا شقوتنا وكنا قوما ضالين ربنا أخرجنا منها فإن عدنا فإنا ظالمون " قال : " فيجيبهم : اخسؤوا فيها ولا تكلمون " قال : " فعند ذلك يئسوا من كل خير وعند ذلك يأخذون في الزفير والحسرة والويل " . قال عبد الله بن عبد الرحمن : والناس لا يرفعون هذا الحديث . رواه الترمذي
اور حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دوزخیوں پر بھوک اس طرح مسلط کردی جائے گی کہ اس بھوک کی اذیت اس عذاب کے برابر ہوگی جس میں وہ دوزخی پہلے سے گرفتار ہونگے چنانچہ وہ بھوک کی اذیت سے بے تاب ہو کر فریاد کریں گے اور ان کی فریاد رسی ضریع کے کھانے کے ذریعہ کی جائے گی جو نہ فربہ کرے گی نہ بھوک کو دفع کرے گا پھر وہ پہلے کھانے کو لاحاصل دیکھ کر دوسری مرتبہ فریاد کریں گے اور اس مرتبہ ان کی فریاد رسی گلے میں پھنسی جانے والے کھانے کے ذریعہ کی جائے گی اس وقت ان کو یہ یاد آئے گا کہ جب (دنیا میں ) کھاتے وقت ان کے گلے میں پھنس جاتی تھی تو اس کو وہ کسی پینے والی چیز سے نیچے اتارتے تھے چنانچہ وہ اپنے گلے میں پھنسے ہوئے کھانے کو اتارنے کے لئے کسی پینے والی چیز کی التجاء کریں گے تب ان کو تیز گرم پانی دیا جائے گا جس کو زنبوروں کے ذریعہ پکڑ کر اٹھایا جائے گا یعنی جن برتنوں میں وہ تیز گرم پانی ہوگا وہ زنبوروں کے ذریعہ پکڑ کر اٹھائے جائیں گے اور اٹھانے والے یا تو فرشتے ہوں گے یا براہ راست دست قدرت ان کو اٹھا کر دوزخیوں کے منہ کو لگائے گا اور جب گرم پانی کے وہ برتن ان کے مونہوں تک پہنچے گے تو ان کے چہروں (کے گوشت) کو بھون ڈالیں گے اور جب ان برتنوں کے اندر کی چیز (جو ان کو پینے کے لئے دی جائے گی جیسے پیپ پیلا پانی وغیرہ ) ان کے پیٹ میں داخل ہوگی تو پیٹ کے اندر کی چیزوں (یعنی آنتوں وغیرہ) کو ٹکڑے ٹکڑے کردے گی پس اس صورت حال سے بیتاب ہو کر " وہ دوزخی (جہنم پر ) متعین فرشتوں سے کہیں گے اے دوزخ کے سنتریو! اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ کم سے کم ایک ہی دن کے لئے ہمارے اوپر مسلط اس عذاب کو ہلکا کردے دوزخ کے سنتری جواب دیں گے کہ (اب ہم سے دعا کے لئے کہتے ہو ) کیا اللہ کے رسول خدائی معجزے اور واضع دلیلیں لے کر تمہارے پاس نہیں آئے تھے ( اور تم سے یہ نہ کہتے تھے کہ کفر وسرکشی کی راہ چھوڑ کر اللہ کے اطاعت و فرمانبرداری کا راستہ اختیار کرلو تاکہ کل آخرت میں دوزخ کے سخت عذاب سے محفوظ رہ سکو؟ ) وہ کہیں گے کہ بے شک اللہ کے رسول ہمارے پاس آئے تھے اور ان کی تعلیمات ہم تک پہنچی تھی ، لیکن وائے افسوس ہم گمراہی میں پڑے رہے اور ایمان وسلامتی کی راہ اختیار نہ کرسکے دوزخ کے سنتری کہیں گے کہ پھر تو تم خود ہی دعا کرو اور اپنا معاملہ سمجھو ہم تو تمہاری شفاعت کرنے سے رہے اور کافروں کی دعا زبان کاری وبے فائدگی کے علاوہ کچھ نہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دوزخی جب جہنم کے سنتریوں سے دعا وشفاعت کرنے میں ناکام ہوجائیں گے اور انہیں سخت مایوسی کا منہ دیکھنا پڑے گا تو وہ یقین کرلیں گے کہ ہمیں عذاب الٰہی سے نجات ملنے والی نہیں ہے پھر کیوں نہ موت ہی مانگی جائے چنانچہ وہ آپس میں کہیں گے کہ مالک یعنی دروغہ جنت سے مدد کی درخواست کرو! اور پھر وہ التجاء کریں گے کہ اے مالک اپنے پروردگار سے دعا کرو کہ وہ ہمیں موت دے دے تاکہ ہمیں آرام مل جائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دوزخیوں کی التجاء سن کر مالک خود اپنی طرف سے یا پروردگار کی طرف جواب دے گا کہ اس دوزخ سے نجات یا موت کا خیال چھوڑ دو تمہیں ہمیشہ ہمیشہ یہیں اور اسی عذاب میں گرفتار رہنا ہے " حضرت اعمش (جو اس حدیث کے ایک راوی ہیں ) کہتے ہیں کہ بعض صحابہ کرام نے (بطریق مرفوع یا موقوف ) مجھ سے بیان کیا کہ مالک سے ان دوزخیوں کی التجاء اور مالک کی طرف سے ان کو جواب دینے کے درمیان ایک ہزار برس کا وقفہ ہوگا یعنی وہ دوزخی مالک سے التجاء کرنے کے بعد ایک ہزار سال تک جواب کا انتظار کرتے رہیں گے اور اس دوران بھی اس عذاب میں مبتلا رہیں گے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر وہ دوزخی (آپس میں ) کہیں گے کہ اب ہمیں براہ راست اپنے پروردگار ہی سے نجات کی التجا کرنی چاہئے کیونکہ وہی قادر مطلق رحیم وکریم اور غفار ہے ) ہمارے حق میں بھلائی وبہتری کرنے والا اس پروردگار سے بہتر اور کوئی نہیں چنانچہ وہ التجا کریں گے کہ ہمارے پروردگار ہماری بدبختی نے ہمیں گھیر لیا اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم (توحید کے راستہ سے ) بھٹک گئے تھے اے پروردگار ہمیں دوزخ (اور یہاں کے عذاب ) سے رہائی عطا فرمادے اگر ہم اس کے بعد بھی کفرو شرک کی طرف جائیں تو اپنے اوپر ظلم کرنے والے ہوں گے اللہ تعالیٰ ان کو جواب دے گا دور رہو کم بختو کتوں کی طرح ذلیل وخوار رہو ) ایسے دوزخ میں پڑے رہو اور رہائی اور نجات کے بارے میں مجھ سے کوئی بات نہ کرو تمہاری گلوخلاصی ہرگز نہیں ہوسکتی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آخر کار وہ دوزخی ہربھلائی سے مایوس ہوجائیں گے اور تب وہ حسرت اور نالہ وفریاد کرنے لگے گیں حضرت عبداللہ بن عبدالرحمن جو اس حدیث کے راوی ہیں کہتے ہیں کہ اس حدیث کو مرفوع قرار نہیں دیا جاتا لیکن ترمذی نے اس حدیث کو مرفوع نقل کیا ہے جیسا کہ روایت کی ابتداء سے معلوم ہوتا ہے ۔
تشریح :
اس بھوک کی اذیت اس عذاب کے برابر ہوگی ۔ ۔ ۔ ۔ الخ۔ کا مطلب یہ ہے کہ ان پر جو بھوک مسلط کی جائے گی اس کی درد ناکی دوزخ کے اور تمام عذاب کی درد نا کیوں کے برابر ہوگی اس سے معلوم ہوا کہ بھوک کی آگ دوزخ کی مانند ہے ۔
اور ان کی فریاد رسی ضریع کے کھانے کے ذریعہ کی جائے گی ۔ جب وہ دوزخی بھوک سے بیتاب ہو کر کچھ کھانے کو مانگیں گے تو ان کو کھانے کے لئے ضریع دیا جائے گا واضح رہے کہ ضریع ایک خار دار جھاڑ کو کہتے ہیں جو حجاز میں ہوتا ہے ، یہ ایک ایسی زہریلی اور کڑوی گھاس ہوتی ہے جس کے پاس کوئی جانور بھی نہیں پھٹکتا ، اور اگر کوئی جانور اس کو کھالیتا ہے تو مرجاتا ہے ۔ بہرحال یہاں حدیث میں ضریع سے مراد آگ کے کانٹے ہیں جو ایلوے سے زیادہ کڑوے مردار سے زیادہ بدبودار اور آگ سے زیادہ بدبودار ہوں گے ۔فربہ کرے گا اور نہ بھوک دفع کرے گا۔ یہ دراصل قرآن کریم کی اس آیت کی طرف اشارہ ہے ۔
(لَيْسَ لَهُمْ طَعَامٌ اِلَّا مِنْ ضَرِيْعٍ Č لَّا يُسْمِنُ وَلَا يُغْنِيْ مِنْ جُوْعٍ Ċ )
88۔ الغاشیۃ : 7-6)(اور ) ان (دوزخیوں ) کو ایک خار دار جھاڑ کے سوا اور کوئی کھانا نصیب نہ ہوگا جو نہ تو کھانے والوں کو فربہ کرے گا اور نہ ان کی بھوک کو دفع کرے گا۔
گلے میں پھنس جانے کے ذریعہ فریاد رسی " کا مطلب یہ ہے کہ دوسری مرتبہ ان کو کھانے کے لئے ہڈی یا آگ کے کانٹے وغیرہ کی طرح کی ایسی چیزیں دی جائیں گی ۔ جو گلے میں جا کر پھنس جائیں گی کہ نہ حلق سے نیچے اتر سکیں گی ، اور نہ باہر آسکیں گی پس حدیث کے اس جملہ میں اس آیت کریمہ کی طرف اشارہ ہے ۔
(اِنَّ لَدَيْنَا اَنْكَالًا وَّجَحِ يْمًا 12 وَّطَعَامًا ذَا غُصَّةٍ وَّعَذَابًا اَلِ يْمًا 13 ) 73۔ المزمل : 13-12)
" حقیقت یہ ہے کہ (کفروشرک کرنے والوں کے لئے ) ہمارے یہاں بیڑیاں ہیں ، اور (دوزخ کی) بھڑکتی آگ ہے اور گلے میں پھنس جانے والا ہے اور درد ناک عذاب ہے ۔
حدیث کے یہ الفاظ وما دعا الکافرین الافی ضلال۔ ( اور کافروں کی دعا زیاں کاری وبے قاعدگی کے علاوہ کچھ نہیں ) بھی دراصل قرآن ہی کے الفاظ ہیں اور ان کی دعا کوزیاں کاری سے تعبیر اس لئے کیا گیا ہے کہ اس وقت ان کے حق میں کوئی بھی دعا وشفقت کار گر نہیں ہوگی ، خواہ وہ خود دعا کریں اور گڑ گڑائیں یا کسی اور سے دعا وشفاعت کرائیں لیکن اس سے یہ ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ کافرومشرک کی دعا اس دنیا میں بھی قبول نہیں ہوتی جیسا کہ قرآن وحدیث کے ان الفاظ سے بعض حضرات نے نتیجہ اخذکیا ہے، حقیقت حال تو یہ ہے کہ اس دنیا میں شیطان تک کی درخواست جو اس نے اپنی عمر کی درازی کے لئے کی تھی اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی ہے پھر کافر کی دعا قبول کیون نہیں ہوسکتی ، بشرطیکہ وہ اللہ تعالیٰ ہی سے دعا کرے ۔
غلبت علینا شقوتنا (ہماری بدبختی نے ہمیں گھیرلیا ) میں شقوۃ شین کے زبر اور قاف کے جزم کے ساتھ ہے اور یہ لفظ شقاوۃ (شین کے زبر کے ساتھ ) بھی پڑھا گیا ہے، دونوں کے ایک ہی معنی ہیں یعنی " بدبختی " جو سعادت " (نیک بختی ) کی ضد ہے مذکورہ جملہ کا مطلب یہ ہے کہ ہماری تقدیر کہ جس میں ہمارا خاتمہ بد لکھ دیا گیا، پوری ہو کر رہی اور ہم خود اپنی بد بختی کا شکار ہوگئے ۔ اگر ہم اس کے بعد بھی کفر وشرک کی طرف جائیں۔ ۔ ۔ ۔ الخ۔ کافر دوزخیوں کا یہ کہنا بھی مکروکذب پر مبنی ہوگا جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا ہے ۔
ولو ردوا لعادوا لمانہوا عنہ وانہم لکذبون۔
اور اگر یہ لوگ پھر (دنیا میں ) واپس بھی بھیج دئیے جائیں تب بھی یہ وہی کام کریں گے جس سے ان کو منع کیا گیا تھا اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ بالکل جھوٹے ہیں ۔
یاخذون فی الزفیروالحسرۃ والویل ( حسرت ونالہ وفریاد کرنے لگیں گے ) میں لفظ زفیر کے اصل معنی ہیں ۔گدھے کا سانس اندر لے جانا جیسا کہ شہیق کے معنی گدھے کا سانس باہر نکالنا یا یہ کہ جب گدھا رینگنا شروع کرتا ہے تو پہلے اس کی آواز باریک اور چھوٹی نکلتی ہے جس کو زفیر " کہا جاتا ہے اور آخر میں اس کی آواز تیز اور بڑی ہوجاتی ہے کہ اس کو شہیق سے تعبیر کیا جاتا ہے ، حدیث کے ان الفاظ میں قرآن کی اس آیت کی طرف اشارہ ہے ۔
لہم فیہا زفیر وشہیق ۔
" دوزخ میں گدھے کی چھوٹی اور بڑی آواز کی طرح ان دوزخیوں کی چیخ وپکار پڑی رہے گی ۔"
بہرحال حدیث کے اس آخری جزء کا مطلب یہ ہے کہ دوزخی جب بارگاہ الٰہی کا جواب سن لیں گے تو وہ بالکل مایوس ونا امید ہوجائیں گے کہ دوزخ کے سنتریوں کو پکارنا کچھ سود مند نہ ہو دروغہ دوزخ سے درخواست کی کہ اللہ تعالیٰ سے موت ہی دلوادے اس کا بھی فائدہ نہ ہوا آخر میں بارگاہ الٰہی میں روئے گڑ گڑائے وہاں بھی کوئی بات قبول نہیں ہوئی، اب کہاں جائیں ، کس کے سامنے فریاد کریں ۔ ایسے میں وہ بے معنی آوازوں اور بے ہنگم صداؤں میں نالہ وفریاد اور چیخ وپکار کرنے لگیں گے جیسا کہ مایوسی کے عالم میں ہوتا ہے ۔ روایت کے آخر میں ان الفاظ " اس حدیث کو مرفوع قرار نہیں دیا جاتا ۔ " کا مطلب یہ ہے کہ بعض محدثین کے نزدیک یہ حدیث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی نہیں ہے بلکہ حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اپنا بیان ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ حدیث بہر صورت مرفوع حدیث یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی ہی کے حکم میں ہے کیونکہ اس کے احوال ، دوزخیوں کی گفتگو اور دوزخ کے عذاب وغیرہ سے متعلق جو بھی مضمون کوئی بھی صحابی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنے بغیر اپنی طرف سے بیان کر ہی نہیں سکتا ۔