مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ جنت اور دوزخ کی تخلیق کا بیان۔ ۔ حدیث 291

عرش الہٰی کا ذکر :

راوی:

وعن جبير بن مطعم قال : أتى رسول الله صلى الله عليه و سلم أعرابي فقال : جهدت الأنفس وجاع العيال ونهكت الأموال وهلكت الأنعام فاستسق الله لنا فإنا نستشفع بك على الله نستشفع بالله عليك . فقال النبي صلى الله عليه و سلم : " سبحان الله سبحان الله " . فما زال يسبح حتى عرف ذلك في وجوه أصحابه ثم قال : " ويحك إنه لا يستشفع بالله على أحد شأن الله أعظم من ذلك ويحك أتدري ما الله ؟ إن عرشه على سماواته لهكذا " وقال بأصابعه مثل القبة عليه " وإنه ليئط أطيط الرحل بالراكب " رواه أبو داود

اور جبیر ابن مطعم رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک دیہاتی آیا اور کہنے لگا کہ (ہمارے ہاں خشک سالی کی وجہ سے ) انسانی جانیں قحط کا شکار ہورہی ہیں ، بال بچوں کو بھکری کا سامنا ہے ، مال وجائداد کی بربادی ہورہی ہے ، اور مویشی ہلاک ہو رہے ہیں ، لہٰذا آپ اللہ تعالیٰ سے ہمارے لئے بارش مانگئے ، ہم اللہ تعالیٰ کے حضور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیلہ بناتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں شفیع مقرر کرتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا : اللہ تعالیٰ کی ذات پاک منزہ ہے ، اللہ تعالیٰ کی ذات پاک منزہ ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم باربار تسبیح کے یہی الفاظ فرماتے رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے چہروں کا رنگ بدل گیا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے شخص تجھ پر افسوس ہے درحقیقت اللہ کو کسی کے ہاں شفیع مقرر نہیں کیا جاتا اور نہ اس کو وسیلہ بنایا جاتا ہے بلاشبہ اللہ کی ذات اور اس کی حیثیت اس سے بالا تر ہے کہ اس کو کسی کا وسیلہ وذریعہ بنایا جائے تجھ پر افسوس کیا تجھے معلوم نہیں کہ اللہ کی عظمت وجلالت کیا ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ اس کا عرش اس کے آسمانوں کو اس طرح محیط ہے یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیوں کو ہتھلی کے اوپر قباکی صورت میں دکھایا یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ کو گنبد کی صورت میں بنا کر دکھایا کہ جس طرح یہ گنبد نما ہاتھ ہتھلی کو گھیرے ہوئے ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کا عرش زمین تو زمین تمام آسمانوں تک کو اپنے نیچے گھیرے ہوئے ہے اور وہ عرش اس قدر وسیع وعریض ہونے کے باوجود اس طرح چرچر کرتا ہے جس اونٹ کا پلان یا گھوڑے کی زین (بھاری بھر کم ) سوار کے نیچے چرچر کرتی ہے (ابوداؤد)

تشریح :
ہم اللہ تعالیٰ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں شفیع مقرر کرتے ہیں اس جملہ سے اس دیہاتی کی مراد یہ تھی کہ ہم اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت وبزرگی کو اپنا وسیلہ بناتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا شفیع قرار دیتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دعا کرنے کی درخواست کرتے ہیں کہ پروردگار ہمارے حال پر رحم فرما کر بارش برسادے نیز آپ کی سفارش وتوجہ چاہنے کے لئے ہم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ملتجی ہیں کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہماری طرف متوجہ کردے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارے حق میں سفارش کرنے کی توفیق عطا فرمائے لیکن اس نے اپنی یہ مراد ظاہر کرنے کے لئے موزوں اسلوب اختیار نہیں کیا جب کہ گھبراہٹ میں اس کی زبان سے ایسے الفاظ نکلے جن سے نہ صرف یہ کہ اس کی اصل مراد خبط ہوگئی بلکہ یہ ظاہر ہوا کہ وہ خود اللہ تعالیٰ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں وسیلہ بنا رہا ہے اور اس طرح اس معاملہ میں اللہ تعالیٰ کی قدرت اس کے نظام اور اس کے حکم واختیار میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شریک وبرابر کررہا ہے جب کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اپنے حکم واختیار اور اپنے نظام قدرت میں کسی بھی طرح مشارکت اور کسی بھی طرح ہمسری کی روادار نہیں ہے ارشاد ربانی ہے
لیس لک من الامرشیئ :
خدا کے نظام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی دخل نہیں اور یہ بھی فرمایا :
من ذا الذی یشفع عندہ الا باذنہ :
ایسا کون شخص ہے جو اس کے پاس کسی کی سفارش کرسکے بدوں اس کی اجازت کے ۔"
لہٰذا اس دیہاتی کا یہ کہنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نہایت ناگوار ہوا ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف سے اس جملہ کی ادائیگی پر اظہار حیرت وتعجب اور اس کو متنبہ کرنے کے لئے بار بار سبحان اللہ سبحان اللہ فرماتے رہے ۔" یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے چہروں کا رنگ بدل گیا ۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بار بار سبحان اللہ کہنے سے اس مجلس میں موجود صحابہ سمجھ گئے کہ دیہاتی کے اس کہنے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شدید ناگواری اور غصہ ہے ، لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غضب وغصہ کو محسوس کرکے وہ سب بھی ڈر گئے اور خوف اللہ سے ان کے چہروں کا رنگ بدل گیا ، اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان صحابہ کے چہروں پر خوف اللہ کا اثر دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سبحان اللہ کہنا موقوف کردیا اور اس دیہاتی کے طرف روئے سخن نہ کیا ۔ " وہ عرش اس قدر وسیع وعریض ہونے کے باوجود اس طرح چرچر کرتا ہے الخ ۔" کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گویا اس دیہاتی کی سمجھ کے مطابق اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان کی تمثیل بیان کی اور اصل مقصد اللہ تعالیٰ کی عظمت وجلالت کا اظہار ہے کہ اتنا بڑا عرش بھی اس کے تحمل سے عاجز ہے

یہ حدیث شیئر کریں