مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ جنت اور دوزخ کی تخلیق کا بیان۔ ۔ حدیث 293

دیدار الہٰی اور حضرت جبرائیل علیہ السلام :

راوی:

وعن زرارة بن أوفى أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال لجبريل : " هل رأيت ربك ؟ فانتفض جبريل وقال : يا محمد إن بيني وبينه سبعين حجابا من نور لو دنوت من بعضها لاحترقت " . هكذا في " المصابيح "

اور حضرت زرارہ ابن اوفیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے پوچہا کہ کیا تم نے اپنے پروردگار کو دیکھا ہے ؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام یہ سن کر تھرتھر کانپنے لگے اور پھر بولے محمد صلی اللہ علیہ وسلم میرے اور اللہ کے درمیان نور کے ستر پردے ہیں اگر ان پردوں میں سے کسی پردے کے قریب ہونے کے لئے ایک انگشت برابر بھی آگے بڑھوں تو جل جاؤں مصابیح میں روایت اسی طرح ہے البتہ ابونعیم نے اپنی کتاب " حلیہ " میں اس روایت کو حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے اور ہوسکتا ہے کہ حضرت زرارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہی نقل کیا ہولیکن ابونعیم کی نقل کردہ روایت میں " فانتقض " ( حضرت جبرائیل علیہ السلام تھر تھر کانپنے لگے) کہ الفاظ نہیں ہے ۔

تشریح :
حضرت زرارہ ایک جلیل القدر تابعی ہیں بصرہ کے قاضی اور اپنے زمانے کے ممتاز علماء اور مشائخ میں سے تھے حضرت ابن عباس اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے سماع رکھتے ہیں خشیت الہٰی اور آخرت کے خوف کا یہ حال تھا کہ ایک دن فجر کی نماز میں امامت کررہے تھے جب اس آیت ، فاذا نقر فی الناقور پر پہنچے تو چیخ مار کر گر پڑے اور وہیں جان جاں آفریں کے سپرد کردی ، ولید ابن عبدالملک کی خلافت کے زمانے میں ٧٣ھ کا واقعہ ہے اور ملا علی قاری نے ایک قول یہ نقل کیا ہے کہ حضرت زرارہ صحابی تھے اور ان کی وفات حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ خلافت میں ہوئی ہے ۔
" حضرت جبرائیل علیہ السلام تھر تھر کانپنے لگے " یعنی مشاہدہ ذات باری تعالیٰ سے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس سوال نے ان پر زبردست ہیبت طاری کردی اور وہ صورت حال کے تصور ہی سے لرزہ براندام ہوگئے کہ دیدار مشاہدہ جس کمال قرب کو مستلزم ہے ، اگر مجھے یہ قرب میسر آتا تو مارے ہیبت کے میرا کیا حال ہوتا !بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس سوال سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آخرت میں حق تعالیٰ کی ذات کا دیدار ومشاہدہ ایک ممکن الوقوع حقیقت ہے کیونکہ اگر یہ دیدار ومشاہدہ محال ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ سوال نہ کرتے ، تاہم قیامت کے دن (آخرت میں ) فرشتوں اور جنات کو حق تعالیٰ کا دیدار حاصل ہوگا یا نہیں ، یہ علماء کے درمیان ایک اختلافی بحث ہے جس کی بحث پیچھے گرز چکی ہے ۔
میرے اور اللہ کے درمیان نور کے ستر پردے حائل ہیں ۔" یہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے دیدار الہٰی کے مرتب عظمی تک اپنی رسائی کے عجز کو ظاہر کیا ، اور اپنے عجز کو انہوں نے اپنے اور ذات حق جل مجدہ کے درمیان ستر پردوں سے تعبیر کیا ۔ پس انہوں نے حجاب کا ذکر اپنے اعتبار سے کیا ، ان کا مطلب یہ نہیں تھا کہ حق تعالیٰ کی ذات ستر پردوں کے پیچھے ہے کیونکہ محجوب (پردہ میں ہونا ) مغلوب ہونے کی علامت ہے جو خالق کی صفت نہیں ہوسکتی ، وہ ہر حالت میں غالب ہوتا ہے اور کوئی بھی چیز اس کا حجاب نہیں بن سکتی اس کے برخلاف مخلوق چونکہ عجز ونقصان کا حامل ہے اس لئے محجوب ہونا اس کی صفت ہوسکتی !واضح رہے کہ اس جملہ میں ستر ہزار پردے " کے الفاظ ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ محض کثرت کی طرف اشارہ کرنا مراد ہے نہ کہ کوئی خاص عدد مراد ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں