انسان کی فضیلت :
راوی:
وعن جابر أن النبي صلى الله عليه و سلم قال : " لما خلق الله آدم وذريته قالت : الملائكة : يا رب خلقتهم يأكلون ويشربون وينكحون ويركبون فاجعل لهم الدنيا ولنا الآخرة . قال الله تعالى : لا أجعل من خلقته بيدي ونفخت فيه من روحي كمن قلت له : كن فكان " . رواه البيهقي في " شعب الإيمان "
اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا !" جب اللہ تعالیٰ آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد کو پیدا فرمایا تو فرشتوں نے عرض کیا کہ پروردگار ! آپ نے تو ایک ایسی مخلوق کو پیدا کیا ہے جو کھاتی ہے اور پیتی ہے شادی بیاہ کرتی ہے اور (طرح طرح کی سواریوں پر ) سوار ہوتی ہے ، تو ہماری درخواست ہے کہ دنیا ( کی تمام نعمتیں ) اس مخلوق کو دے دیجئے اور آخرت (کی تمام نعمتیں ) ہمیں مرحمت فرمادیجئے ۔" اللہ تعالیٰ نے فرمایا : " جس مخلوق کو میں نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا ، اور اس میں اپنی روح پھونکی ، اس کو مخلوق کے برابر قرار نہیں دے سکتا جس کو میں نے کن کہا تو وہ پیدا ہوگئی ۔" (اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے ۔"
تشریح :
فرشتوں کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ جب یہ مخلوق روئے زمین پر آپ کی خلافت کے لئے پیدا کی گئی ہے اور اس کو دنیا کی وہ تمام نعمتیں اور لذتیں عطا کی گئی ہیں جن سے ہمیں محروم رکھا گیا ہے تو ان کو بس دنیا ہی کی سرفرازی تک محدود رکھا جائے ، یا یہ کہ دنیا کی ملنے والی نعمتیں ان کے حق میں ہمیشہ باقی رکھی جائیں اور آخرت کی تمام نعمتوں کو ہمارے لئے مخصوص کردیا جائے کہ جس طرح ہمیں دنیا کی نعمتوں میں سے کوئی حصہ نہیں ملے گا اسی طرح انسان نامی اس مخلوق کو آخرت کی نعمتوں میں سے کوئی حصہ نہ ملے تاکہ ہم دونوں برابر ہوجائیں !گویا فرشتوں نے دونوں کو اللہ کی مخلوق ہونے کے اعتبار سے خود کو آدم علیہ السلام اور ابن آدم کے مرتبہ ومقام کے برابر جانا، لیکن حق تعالیٰ نے فرشتوں کے اس گمان کی تصحیح فرمائی اور واضح کیا کہ انسان کی تخلیق و پیدائش دوسری تمام مخلوقات جس میں فرشتے بھی شامل ہیں کی تخلیق وپیدائش سے یکسرمختلف نوعیت رکھتی ہے مثلا فرشتوں کی تخلیق وپیدائش تو لفظ کن کے ذریعہ عمل میں آئی کہ صرف کن (پیدا ہوجا) کہ دیا تو تم فرشتے عالم وجود میں آگے اس کے برخلاف انسان کی تخلیق وپیدائش ایک خاص نظام کے تحت ہوئی اور اس کا سلسلہ بتدریج جاری ہے کہ سب سے پہلے آدم علیہ السلام کو بغیر کسی واسطہ اور ذریعہ کے دست قدرت نے براہ رست تخلیق کیا ان میں روح پھونکی پھر ان ہی کے اندر سے ان کا جوڑا (ہوا کو ) پیدا کیا اور ان دونوں سے توالدوتناسل کا سلسلہ جاری کیا جوان کے بعد ان کی اولاد در اولاد اس وقت تک چلتا رہے کا جب تک اس دنیا کے خاتمہ کا وقت نہیں آجاتا پھر یہ کہ فرشتوں کا خمیر مجرد ہے جب کہ انسان کا خمیر مرکب ہے اس کے اندر ہدایت قبول کرنے کی بھی صلاحیت ہے اور ضلالت کو اختیار کرنے کا مادہ بھی وہ پروردگار کی صفت جلال کا مظہر بننے کی بھی استعداد رکھتا ہے اور اس کی صفت جمال کا مظہر بھی بن سکتا ہے لہٰذا جو مخلوق اپنی تخلیق وپیدائش کے اعتبار سے یہ خصوصیت رکھتی ہے وہ اس مخلوق کے برابر کسے قرار دی جا سکتی ہے جو اس جیسی خصوصیت سے عاری ہو واضح ہو کہ شرف و کر امت اور قربت میں فرشتہ انسان کا ہمسر نہیں ہوسکتا خاص طور پر شرف کرامت کے اعتبار سے تو انسان فرشتہ سے بہت اونچا ہے اور اس کا مقام ومرتبہ بہت اعلیٰ ہے اور چونکہ فرشتوں کو معصوم پیدا کیا گیا ہے اس لئے ان کو عذاب سے تو دور رکھا گیا ہے لیکن ان کو نعمتوں سے بھی محروم رکھا گیا ہے ان کے برخلاف انسان کو چونکہ نیکی کا راستہ اختیار کرنے اور برائی کے راستے سے بچنے کا مکلف وذمہ دار بنا کر پیدا کیا گیا ہے اس لئے جو انسان اپنی اس ذمہ داری کو پوری طرح ادا کرتا ہے وہ دونوں جہاں کی نعمتوں کا مستحق ہوتا ہے اور جو انسان اس ذمہ داری سے اعراض کرتا ہے وہ دونوں جہاں میں عتاب وعذاب کا مستوجب ہوتا ہے آخر میں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ اور اس میں روح پھونکی میں اللہ کی طرف روح کی نسبت محض روح کی عظمت وبزرگی کے اظہار کے لئے ہے جیسے بیت اللہ میں اللہ کی طرف بیت کی نسبت ہے ۔