سنن نسائی ۔ جلد دوم ۔ طلاق سے متعلقہ احادیث ۔ حدیث 1394

ایلاء سے متعلق

راوی: محمد بن عبداللہ بن حکم , مروان بن معاویہ , ابوضحی

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَکَمِ الْبَصْرِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو يَعْفُورٍ عَنْ أَبِي الضُّحَی قَالَ تَذَاکَرْنَا الشَّهْرَ عِنْدَهُ فَقَالَ بَعْضُنَا ثَلَاثِينَ وَقَالَ بَعْضُنَا تِسْعًا وَعِشْرِينَ فَقَالَ أَبُو الضُّحَی حَدَّثَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ قَالَ أَصْبَحْنَا يَوْمًا وَنِسَائُ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَبْکِينَ عِنْدَ کُلِّ امْرَأَةٍ مِنْهُنَّ أَهْلُهَا فَدَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَإِذَا هُوَ مَلْآنٌ مِنْ النَّاسِ قَالَ فَجَائَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَصَعِدَ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي عُلِّيَّةٍ لَهُ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ فَلَمْ يُجِبْهُ أَحَدٌ ثُمَّ سَلَّمَ فَلَمْ يُجِبْهُ أَحَدٌ ثُمَّ سَلَّمَ فَلَمْ يُجِبْهُ أَحَدٌ فَرَجَعَ فَنَادَی بِلَالًا فَدَخَلَ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَطَلَّقْتَ نِسَائَکَ فَقَالَ لَا وَلَکِنِّي آلَيْتُ مِنْهُنَّ شَهْرًا فَمَکَثَ تِسْعًا وَعِشْرِينَ ثُمَّ نَزَلَ فَدَخَلَ عَلَی نِسَائِهِ

احمد بن عبداللہ بن حکم، مروان بن معاویہ، حضرت ابوضحی سے حضرت ابویعفور روایت کرتے ہیں کہ ہم لوگ ابوضحی کے نزدیک ذکر کیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ مہینہ کی مدت تیس روز ہے اور بعض حضرات فرماتے تھے کہ 29 دن ہے۔ اس دوران حضرت ابوضحی نے نقل کہا کہ مجھ سے حضرت ابن عباس نے کہ اٹھے ہم ایک دن صبح تو کیا معاملہ دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات رو رہی ہیں اور ہر ایک زوجہ مطہرہ کے پاس ان کے گھر کے لوگ موجود تھے۔ پھر میں مسجد میں حاضر ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ مسجد لوگوں سے بھری ہوئی ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تشریف لے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت بالاخانہ میں تشریف رکھتے تھے۔ حضرت عمر نے سلام فرمایا کسی نے ان کے سلام کا جواب نہیں دیا۔ انہوں نے پھر سلام کیا لیکن کسی نے ان کے سلام کا جواب نہیں دیا۔ انہوں نے تین مرتبہ اسی طریقہ سے کیا پھر وہ واپس تشریف لائے اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایا۔ وہ اوپر تشریف لے گئے جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس اور عرض کیا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ازواج مطہرات کو طلاق دے دی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں لیکن میں نے ان سے ایک ماہ کا ایلاء کیا جسے راوی بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مکان میں 29 روز ٹھہرے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں سے نیچے اتر آئے اور پھر وہاں سے ازواج مطہرات کے پاس تشریف لے گئے۔

Yahya bin Abi Bukair Al Karmani said: “Shu’bah narrated to us, from ‘Abdur-Rahman bin Al Qasim, from his father, from ‘Aishah. He (Shu’bah) said: “And he (‘Abdur-Rahman) was the executor for his father.” He (Shu’bah) said: “I was afraid to say to him: ‘Did you hear this from your father.” — ‘Aishah said: “I asked the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم dr about Barirah, as I wanted to buy her but it was stipulated that the Wala’ would go to her (former) masters. He said: ‘Buy her, for the Wala’ is to the one who sets the slave free.’ And she was given the choice, as her husband was a slave.” Then he said, after that: “I do not know.” — “And some meat was brought to the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم and they said: ‘This is some of that which was given in charity to Barlrah.’ He said: ‘It is charity for her and a gift for us.”(Sahih)

یہ حدیث شیئر کریں