مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ سیدالمرسلین کے فضائل ومناقب کا بیان ۔ حدیث 339

مسلمان آپس کے افتراق وانتشار کے باوجود اپنے مشترکہ دشمن کے خلاف متحد ہونگے :

راوی:

وعن عوف بن مالك قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " لن يجمع الله على هذه الأمة سيفين : سيفا منها وسيفا من عدوها " رواه أبو داود

اور حضرت عوف ابن مالک کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس امت کے خلاف دو تلواروں کو اکٹھا نہیں کرے گا ایک تو خود مسلمانوں کی اور دوسری ان کے دشمنوں کی (ابو داؤد)
تشریح : یہ خدائی فیصلہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف کبھی بھی دو تلواریں جمع نہیں ہوں گی جن سے پوری ملی طاقت تہ وبالا ہوجائے اور مسلمان بحیثیت مجموعی ختم ہوجائیں !دو تلواروں کے جمع ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایک طرف تو مسلمان آپس میں دست وگریبان ہوں ، باہمی افتراق وانتشار کا شکار ہوں ، ایک دوسرے سے لڑنے جھگڑنے میں مصروف ہوں اور دوسری طرف سے ان کا مشترکہ دشمن یعنی کوئی غیر مسلم طاقت ان پر حملہ آور ہو اور ان باہمی افتراق وانتشار کا فائدہ اٹھا کر ان پر غلبہ وتسلط حاصل کرلے اور ان کو مٹا کر رکھ دے ، تورپشتی نے اس حدیث کی تشریح میں لکھا ہے کہ جب مسلمان آپس میں لڑنے جھگڑنے لگینگے اور ان میں اتحاد واتفاق کی جگہ ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی اتنی شدت اختیار کر جائے کہ ملی شیرازہ منتشر ہونے لگے ، تو اللہ تعالیٰ ان پر ایسی غیر مسلم طاقت مسلط کردے گا جس کا ظلم وجور مسلمانوں کی ملی اتفاق واتحاد کے جھنڈے کے نیچے لے آئے گا اور وہ آپس میں لڑنا جھگڑنا چھوڑ کر باہم شیروشکر ہوجائیں گے ۔ اور طیبی نے یہ لکھا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ اس امت کے لوگوں کو ایک ساتھ دو لڑائیوں کا شکار نہیں بنایا جائے گا ، کہ آپس میں بھی ایک دوسرے کے خلاف لڑیں اور کسی غیر مسلم دشمن کے خلاف بھی نبرد آزما ہوں ، بلکہ جب ان کو اپنے غیر مسلم دشمن کی جارحیت اور استیصال کا سامنا ہوگا تو وہ اپنے تمام باہمی اختلاف اور لڑائی جھگڑے مٹا کر اس دشمن کے مقابلہ پر یکجا اور متحد ہوجائیں گے ۔

یہ حدیث شیئر کریں