مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ سیدالمرسلین کے فضائل ومناقب کا بیان ۔ حدیث 340

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسلی ونسبی فضیلت :

راوی:

وعن العباس أنه جاء إلى النبي صلى الله عليه و سلم فكأنه سمع شيئا فقام النبي صلى الله عليه و سلم على المنبر فقال : " من أنا ؟ " فقالوا : أنت رسول الله . فقال : " أنا محمد بن عبد الله بن عبد المطلب إن الله خلق الخلق فجعلني في خيرهم ثم جعلهم فرقتين فجعلني في خير فرقة ثم جعلهم قبائل فجعلني في خيرهم قبيلة ثم جعله بيوتا فجعلني في خيرهم بيتا فأنا خيرهم نفسا وخيرهم بيتا " . رواه الترمذي

اور حضرت عباس سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے (ایک دن ) کفار کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ہرزہ سرائی کرتے سنا تو (افسوس اور غصہ میں بھرے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی میں آئے ( اور بتایا کہ کفار یہ بکو اس کررہے ہیں کہ اگر اللہ میاں کو مکہ ہی کے کسی شخص کو اپنا نبی اور رسول بنانا تھا تو اس شہر کے بڑے بڑے صاحب دولت وثروت اور اونچے درجے کے سرداروں کو چھوڑ کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انتخاب کیوں کرتا ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (نے یہ سنا تو واضح کرنے کے لئے نسلی ونسبی اور خاندانی عظمت وعزت کے اعتبار سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کیا ہے اور مرتبہ نبوت پر فائز ہونے کے لئے دوسروں کے مقابلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت واہمیت کیا ہے ) منبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ تم لوگ جانتے ہو ، میں کون ہوں ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (ہاں میں اللہ کا رسول ہوں ، لیکن میری نسلی ونسبی اور خاندانی عظمت کیا ہے ، اس کو جاننے کے لئے سنو) میں عبداللہ بن عبد المطلب کا بیٹا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہوں اور عبد المطلب وہ ہستی ہیں جو عرب میں نہایت بزرگ ومعزز ، بڑے شریف وپاکباز اور انتہائی مشہور ومعروف تھے ) حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق (جن وانسان ) کو پیدا کیا تو مجھے اس مخلوق میں سے بہترین مخلوق (نوع انسانی ) میں پیدا کیا پھر اس بہترین مخلوق (نوع انسانی ) کے اللہ تعالیٰ نے دو طبقے کئے (ایک عرب دوسراعجم ) اور مجھے ان دونوں طبقوں میں سے بہترین طبقہ (عرب ) میں پیدا کیا ، پھر اللہ تعالیٰ نے اس بہترین طبقہ (عرب ) کو قبائل درقبائل کیا (یعنی اس طبقہ کو مختلف قبیلوں اور قوموں میں تقسیم کیا ) اور مجھے ان قبائل میں سے بہترین قبیلہ (قریش ) میں پیدا کیا ، پھر اللہ تعالیٰ نے اس بہترین قبیلہ (قریش ) کے مختلف گھرانے بنائے اور مجھے ان گھرانوں میں سے بہترین گھرانے (بنوہاشم ) میں پیدا کیا ، پس میں ان (تمام نوع انسانی اور تمام اہل عرب ) میں ذات وحسب کے اعتبار سے بھی سب سے بہتر واعلی ہوں اور خاندان وگھرانے کے اعتبار سے بھی سب سے اونچا ہوں (ترمذی)
تشریح : حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نسلی ونسبی اور خاندانی عظمت وفضیلت کا اظہار کرکے گویا یہ واضح کیا کہ اللہ کا آخری نبی بننے اور اللہ کی آخری کتاب پانے کا سب سے زیادہ مستحق میں ہی تھا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ حکمت الہٰی اس کا لحاظ رکھتی تھی کہ مرتبہ نبوت ورسالت پر فائز ہونے والی ہستی حسب اور خاندان کے اعتبار سے بلند درجہ اور عالی حیثیت ہو لیکن انبیاء کی ذات کے لئے حسب ونسب کی عظمت وبرتری کا لازم ہونا کوئی بنیادی چیز نہیں ہے ، اس کا تعلق محض ان لوگوں کے خلاف اتمام حجت سے ہے جو حسب ونسب کی بڑائی اور خاندانی وجاہت کوزیادہ اہمیت دیتے ہیں ، جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت جاہل اور بیوقوف کفار کہا کرتے تھے کہ اگر اللہ کی آخری کتاب قران کو نازل کیا جانا تھا اور نبوت ورسالت قائم کی جانی تھی تو اس کے لئے عرب کے بڑے سرداروں میں سے کسی کا انتخاب کیوں نہیں کیا گیا !ور نہ جہان تک نفس نبوت کا تعلق ہے وہ خود اتنا بڑا شرف ہے جس کے سامنے کسی کی بھی بڑی سے بڑی وجاہت اور عظمت بے حیثیت چیز ہے ، اس کا حصول نہ حسب ونسب کی عظمت وبلندی پر موقوف ہے اور نہ کسی اور سبب وذریعہ پر بلکہ محض اللہ کا فضل ہے کہ اس نے جس کو چاہا اس شرف ومرتبہ کے لئے منتخب فرمایا قرآن کریم میں ارشاد ہے
اللہ اعلم حیث یجعل رسالتہ :
اس کو تو اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ اپنی رسالت کے لئے کس کو منتخب کرے ایک اور موقع پر فرمایا ۔
و اللہ یختص برحمتہ من یشاء و اللہ ذو الفضل العظیم ۔
اور اللہ تعالیٰ اپنی رحمت (عنایت ) کے ساتھ جس کو منظور ہوتا ہے مخصوص فرما لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل (کرنے ) والے ہیں ۔
وکان فضل اللہ علیک عظیما ۔
اللہ تعالیٰ نے آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو (اپنی کتاب اور علم ونبوت عطا کر کے ) بڑے فضل سے نوازا۔"

یہ حدیث شیئر کریں