جامع ترمذی ۔ جلد دوم ۔ قیامت کا بیان ۔ حدیث 375

باب

راوی: ہناد , یونس بن بکیر , عمربن ذر , مجاہد , ابوہریرہ

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُکَيْرٍ حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ ذَرٍّ حَدَّثَنَا مُجَاهِدٌ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ کَانَ أَهْلُ الصُّفَّةِ أَضْيَافُ أَهْلِ الْإِسْلَامِ لَا يَأْوُونَ عَلَی أَهْلٍ وَلَا مَالٍ وَاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ إِنْ کُنْتُ لَأَعْتَمِدُ بِکَبِدِي عَلَی الْأَرْضِ مِنْ الْجُوعِ وَأَشُدُّ الْحَجَرَ عَلَی بَطْنِي مِنْ الْجُوعِ وَلَقَدْ قَعَدْتُ يَوْمًا عَلَی طَرِيقِهِمْ الَّذِي يَخْرُجُونَ فِيهِ فَمَرَّ بِي أَبُو بَکْرٍ فَسَأَلْتُهُ عَنْ آيَةٍ مِنْ کِتَابِ اللَّهِ مَا أَسْأَلُهُ إِلَّا لِيُشْبِعَنِي فَمَرَّ وَلَمْ يَفْعَلْ ثُمَّ مَرَّ بِي عُمَرُ فَسَأَلْتُهُ عَنْ آيَةٍ مِنْ کِتَابِ اللَّهِ مَا أَسْأَلُهُ إِلَّا لِيُشْبِعَنِي فَمَرَّ وَلَمْ يَفْعَلْ ثُمَّ مَرَّ أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَبَسَّمَ حِينَ رَآنِي وَقَالَ أَبَا هُرَيْرَةَ قُلْتُ لَبَّيْکَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ الْحَقْ وَمَضَی فَاتَّبَعْتُهُ وَدَخَلَ مَنْزِلَهُ فَاسْتَأْذَنْتُ فَأَذِنَ لِي فَوَجَدَ قَدَحًا مِنْ لَبَنٍ فَقَالَ مِنْ أَيْنَ هَذَا اللَّبَنُ لَکُمْ قِيلَ أَهْدَاهُ لَنَا فُلَانٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَا هُرَيْرَةَ قُلْتُ لَبَّيْکَ فَقَالَ الْحَقْ إِلَی أَهْلِ الصُّفَّةِ فَادْعُهُمْ وَهُمْ أَضْيَافُ الْإِسْلَامِ لَا يَأْوُونَ عَلَی أَهْلٍ وَلَا مَالٍ إِذَا أَتَتْهُ صَدَقَةٌ بَعَثَ بِهَا إِلَيْهِمْ وَلَمْ يَتَنَاوَلْ مِنْهَا شَيْئًا وَإِذَا أَتَتْهُ هَدِيَّةٌ أَرْسَلَ إِلَيْهِمْ فَأَصَابَ مِنْهَا وَأَشْرَکَهُمْ فِيهَا فَسَائَنِي ذَلِکَ وَقُلْتُ مَا هَذَا الْقَدَحُ بَيْنَ أَهْلِ الصُّفَّةِ وَأَنَا رَسُولُهُ إِلَيْهِمْ فَسَيَأْمُرُنِي أَنْ أُدِيرَهُ عَلَيْهِمْ فَمَا عَسَی أَنْ يُصِيبَنِي مِنْهُ وَقَدْ کُنْتُ أَرْجُو أَنْ أُصِيبَ مِنْهُ مَا يُغْنِينِي وَلَمْ يَکُنْ بُدٌّ مِنْ طَاعَةِ اللَّهِ وَطَاعَةِ رَسُولِهِ فَأَتَيْتُهُمْ فَدَعَوْتُهُمْ فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَيْهِ فَأَخَذُوا مَجَالِسَهُمْ فَقَالَ أَبَا هُرَيْرَةَ خُذْ الْقَدَحَ وَأَعْطِهِمْ فَأَخَذْتُ الْقَدَحَ فَجَعَلْتُ أُنَاوِلُهُ الرَّجُلَ فَيَشْرَبُ حَتَّی يَرْوَی ثُمَّ يَرُدُّهُ فَأُنَاوِلُهُ الْآخَرَ حَتَّی انْتَهَيْتُ بِهِ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ رَوَی الْقَوْمُ کُلُّهُمْ فَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقَدَحَ فَوَضَعَهُ عَلَی يَدَيْهِ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَتَبَسَّمَ فَقَالَ أَبَا هُرَيْرَةَ اشْرَبْ فَشَرِبْتُ ثُمَّ قَالَ اشْرَبْ فَلَمْ أَزَلْ أَشْرَبُ وَيَقُولُ اشْرَبْ حَتَّی قُلْتُ وَالَّذِي بَعَثَکَ بِالْحَقِّ مَا أَجِدُ لَهُ مَسْلَکًا فَأَخَذَ الْقَدَحَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَسَمَّی ثُمَّ شَرِبَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ہناد، یونس بن بکیر، عمربن ذر، مجاہد، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اصحاب صفہ مسلمانوں کے مہمان تھے۔ کیونکہ ان کا کوئی گھر نہیں تھا اور نہ ہی ان کے پاس مال تھا۔ اس پروردگار کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں میں بھوک کی شدت کی وجہ سے اپنا کلیجہ زمین پر ٹیک دیا کرتا تھا اور اپنے پیٹ پر پتھر باندھا کرتا تھا۔ ایک دن میں راستہ میں بیٹھا ہوا تھا کہ ابوبکر وہاں سے گزرے تو میں نے ان سے صرف اس لئے ایک آیت کی تفسیر پوچھی کہ وہ مجھے ساتھ لے جائے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ پھر عمر گزرے تو ان سے بھی اسی طرح سوال کیا وہ بھی چلے گئے اور مجھے ساتھ نہیں لے گئے۔ پھر ابوقاسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گزر ہوا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا ابوہریرہ ! میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے لے کر اپنے گھر تشریف لے گئے۔ پھر میں نے اجازت چاہی تو مجھے بھی داخل ہونے کی اجازت دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دودھ کا پیالہ پیش کیا گیا تو پوچھا کہ یہ کہاں سے آیا ہے؟ عرض کیا گیا فلاں نے ہدیئے میں بھیجا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ سے مخاطب ہوئے اور حکم دیا کہ اہل سفہ کو بلا لاؤ۔ کیونکہ وہ لوگ مسلمانوں کے مہمان ہیں اور ان کا کوئی گھر بار نہیں۔ چنانچہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کوئی صدقہ وغیرہ آتا تو اسے انہی کے پاس بھیج دیا کرتے اور اگر ہدیہ آتا تو انہیں بھی اپنے ساتھ شریک کرتے۔ حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں مجھے یہ چیز ناگوار گزری کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک پیالہ دودھ کے لئے مجھے اصحاب صفہ کو بلانے کا حکم دے رہے ہیں۔ ان کے لئے اس ایک پیالہ دودھ کی بھلا کیا حیثیت ہے۔ پھر مجھے حکم دیں گے کہ اس پیالے کو لے کر باری باری سب کو پلاؤ۔ لہذا میرے لئے تو کچھ بھی نہیں بچے گا۔ جبکہ مجھے امید تھی کہ میں اس سے بقدر کفایت پی سکوں گا اور وہ تھا بھی اتنا ہی۔ لیکن چونکہ اطاعت ضروری تھی لہذا چار و ناچار انہیں بلا کر لایا۔ پھر جب وہ لوگ (اصحاب صفہ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پہنچے اور اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے ابوہریرہ ! یہ پیالہ پکڑو اور ان کو دیتے جاؤ۔ ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ میں نے پیالہ لے کر ایک کو دیا انہوں نے سیر ہو کر دوسرے کو دیا یہاں تک کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچ گیا۔ حالانکہ تمام افراد سیر ہو چکے تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیالہ اپنے دستِ مبارک میں رکھا پھر سر اٹھا کر مسکرائے اور فرمایا ابوہریرہ پیو۔ میں نے پیا۔ پھر فرمایا پیو۔ یہاں تک کہ میں پیتا رہا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہی فرماتے رہے کہ پیو۔ آخر میں نے عرض کیا اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دین حق کے ساتھ بھیجا اب اسے پینے کی گنجائش نہیں۔ پھر آپ نے پیالہ لیا اور اللہ کی تعریف بیان کرنے کے بعد بِسْمِ اللَّهِ پڑھی اور خود بھی پیا۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

Sayyidina Abu Huraira (SAW) narrated: The Ahlus as Suffah were guests of the adherents of Islam. They owned no house and no property. By Allah besides Whom there is no God, I used to rest my liver on the ground and tie a stone on my belly because of severe hunger. One day, I sat down on the path on which they passed when Abu Bakr came by. I asked him about a verse from Allah’s Book and I did not ask him but only that he might take me along but he went away without doing that. Then, Umar came by and I asked him about a verse Book, and I had not asked him except that he might take me along, but he moved ahead without doing that. Then Abul Qasim came by and smiled on seeing me. I said, “Here I am, O Messenger of Allah.” He said, “Come along.” and walked ahead and I followed him. He entered his house and I sought his permission which he gave me. He found a bowl of milk and asked. ‘From where has this milk come to you.’ He was told “It is presented to us by so-and-so.”He said, “0 Abu Hurayrah.” I said, “Here am I.” He said, “Fetch the Ahl as Suffah. Invite them. They are the guests of the Muslims. They own neither house nor property.” when he received charity, he sent that to them and did not take anything from it for himself. And when he received a gift, he summoned i, took from it and shared it with them.O But, I did not like it (that day) , for, he sent me to summon them over a bowl of milk. What is a bowl of milk for them? He will then ask me to take the bowl round to, each of them and I will find nothing for me while I had hoped to drink from it to satiation point. And it was just that much. However I had to obey. so like it or not I fetched them. When they came in and sat down at their places, he gave me the bowl, saying. “Give them to drink.” I gave it to each, one by one. Everyone drank to his full and returned the bowl to me and I gave it to the next man till I had finished with them and come to Allah’s Messenger. He took the bowl and kept it in his hand, raised his head and smiled. He said, “0 Abu Hurayrah, drink!" So, I drank from it. He said again, “Drink!” And I did not cease to drink and he to say, "Drink!", till I said, “By Him Who sent you with the truth, I find no possibility for any more.” So, he took the bowl, praised Allah, took his name and drank.

[Ahmed 10684, Bukhari 6246]

——————————————————————————–

یہ حدیث شیئر کریں