قیامت کے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت وبرتری :
راوی:
وعن أنس قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " أنا أول الناس خروجا إذا بعثوا وأنا قائدهم إذا وفدوا وأنا خطيبهم إذا أنصتوا وأنا مستشفعهم إذا حبسوا وأنا مبشرهم إذا أيسوا الكرامة والمفاتيح يومئذ بيدي ولواء الحمد يومئذ بيدي وأنا أكرم ولد آدم على ربي يطوف علي ألف خادم كأنهن بيض مكنون أو لؤلؤ منثور " . رواه الترمذي والدارمي وقال الترمذي : هذا حديث غريب
اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (قیامت کے دن) جب لوگوں کو دوبارہ زندہ کرکے اٹھایا جائے گا تو سب سے پہلے قبر میں سے میں نکلوں گا جب لوگ بار گاہ الٰہی میں پیش ہوں گے تو ان کی قیادت میں کروں گا ، جب تمام لوگ خاموش ہوں گے تو میری زبان سب کی ترجمانی کرے گی ، اور جب لوگوں کو موقف میں روک دیا جائے گا تو ان کی خلاصی کے لئے شفاعت وشفارش میں کروں گا ، جب لوگوں پر نا امیدی اور مایوسی چھائی ہوگی تو (اہل ایمان کو) مغفرت ورحمت کی بشارت دینے والا میں ہوں گا ، اس (قیامت کے) دن شرف و کر امت اور جنت کی کنجیاں میرے ہاتھ میں (یعنی میرے تصرف ) میں ہوں گی ، اس دن حمد کا پر چم میرے ہاتھ میں ہوگا ، اس دن پروردگار کے نزدیک آدم کے بیٹوں میں سب سے بزرگ واشرف میری ہی ذات ہوگی ، میرے آگے پیچھے ہزاروں خادم پھرتے ہوں گے جیسے وہ چھپے ہوئے انڈے یا بکھرے موتی ہیں ، اس روایت کو ترمذی ودارمی نے نقل کیا ہے اور ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے ۔"
تشریح :
جب تمام لوگ خاموش ہوں گے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الخ۔ میں اس طرف اشارہ ہے کہ جب میدان حشر میں عام دہشت وہولناکی چھائی ہوگی ، ہر شخص متحیروسراسیمہ ہوگا کسی میں اتنی ہمت نہیں ہوگی کہ اپنی زبان سے دو لفظ ادا کرسکے اور کوئی عذر ودرخواست پیش کرے تو اس وقت سردار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات گرامی آگے آئے گی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب کی طرف سے عذر ومعذرت بیان کریں گے شفاعت کی درخواست پیش فرمائیں گے اور اس وقت جب کہ عام لوگ تو درکنار بڑے بڑے انبیاء کو بولنے کی مجال نہیں ہوگی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بارگاہ رب العزت میں گویا ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کی ایسی تعریف وثنا بیان فرمائیں گے جو اس کی شان کے لائق ہوگی ، اور اس طرح اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ اور کسی کو بولنے اور کچھ کہنے کی اجازت نہیں ہوگی پس قرآن کریم میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ :
ہذا یوم لاینطقون ولا یؤذن لہم فیعتذورن۔
یہ وہ دن ہوگا جس میں وہ لوگ نہ بول سکیں گے اور نہ ان کو (عذر کی ) اجازت ہوگی ،
تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اس سے مستثنیٰ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ اور کسی کو بولنے کی اجازت نہیں ہوگی ، یایہ کہ اس آیت میں ابتدائی مرحلہ کا ذکر ہے کہ شروع میں کسی کو بھی بولنے کی اجازت نہیں ہوگی مگر بعد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اجازت عطا فرمائی جائے گی ، اور یا یہ کہ اس آیت کا تعلق صرف اہل کفر سے ہے ۔
جب لوگوں پر نا امیدی ومایوسی چھائی ہوگی ۔" کا مطلب یہ ہے کہ ایک طرف تو لوگوں پر سخت خوف ودہشت طاری ہوگی اور دوسری طرف وہ ایک ایک کرکے تمام ہی بڑے بڑے انبیاء سے شفاعت وسفارش کی درخواست کریں گے اور کوئی نبی ان کی طرف سے بولنے اور شفاعت کرنے کی جرأت نہ کرسکے گا ، تو ان پر رحمت ومغفرت کی طرف سے نا امیدی چھاجائے گی تب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بار گاہ رب العزت میں ان کی شفاعت کریں گے اور ان کی مایوسی ونا امیدی کو ختم فرمائیں گے ۔
" چھپے ہوئے انڈوں " سے مراد شترمرغ کے انڈے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غلاموں ، خادموں اور حوروں کو شترمرغ کے انڈوں سے اس لئے تشبیہ دی کہ وہ (انڈے ) گرد وغبار وغیرہ سے محفوظ ہونے کی وجہ سے صفائی ستھرائی کی علامت سمجھے جاتے ہیں ، ان کا رنگ بھی ایسا سفید ہونے کی وجہ سے کہ جس میں کچھ زردی کی آمیزش ہو بہت پیارا مانا جاتا ہے ، اور مجمع البحار میں لکھا ہے کہ (چھپے ہوئے انڈوں سے ) مراد سیپ کے موتی ہیں ، جو لوگوں کے ہاتھوں اور نظروں سے بچے رہنے کی وجہ سے بڑی آب وتاب رکھتے ہیں ۔ حاصل یہ کہ اس دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے پیچھے دائیں بائیں جو خادم ہوں گے وہ صفائی ستھرائی، رنگ وروپ اور بالکل نئے نویلے ہونے کی وجہ سے نہایت بھلے معلوم ہونگے ۔"
یابکھرے ہوئے موتی ہوں ۔" میں اس طرف اشارہ ہے کہ جس طرح آب وتاب رکھنے والے موتی ، کسی لڑی میں پروئے ہوئے ہونے کی بہ نسبت یونہی بکھرے ہوئے زیادہ خوبصورت اور چمکدار لگتے ہیں اس طرح وہ خادم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چاروں طرف ادھر ادھر بکھرے ہوئے اور خدمت میں لگے ہوئے بہت زیادہ خوبصورت اور دلکش معلوم ہوں گے ۔"