مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسماء مبارک اور صفات کا بیان ۔ حدیث 373

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا سراپا

راوی:

عن علي بن أبي طالب قال : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم ليس بالطويل ولا بالقصير ضخم الرأس واللحية شئن الكفين والقدمين مشربا حمرة ضخم الكراديس طويل المسربة إذا مشى تكفأ تكفأ كأنما ينحط من صبب لم أر قبله ولا بعده مثله صلى الله عليه و سلم . رواه الترمذي وقال : هذا حديث حسن صحيح
وعنه كان إذا وصف النبي صلى الله عليه و سلم قال : لم يكن بالطويل الممغط ولا بالقصير المتردد وكان ربعة من القوم ولم يكن بالجعد القطط ولا بالسبط كان جعدا رجلا ولم يكن بالمطهم ولا بالمكلثم وكان في الوجه تدوير أبيض مشرب أدعج العينين أهدب الأشفار جليل المشاش والكتد أجرد ذو مسربة شئن الكفين والقدمين إذا مشى يتقلع كأنما يمشي في صبب وإذا التفت التفت معا بين كتفيه خاتم النبوة وهو خاتم النبيين أجود الناس صدرا وأصدق الناس لهجة وألينهم عريكة وأكرمهم عشيرة من رآه بديهة هابه ومن خالطه معرفة أحبه يقول ناعته : لم أر قبله ولا بعده مثله صلى الله عليه و سلم . رواه الترمذي

اور حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف بیان کرتے تو کہتے : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہ تو بہت لمبے تھے اور نہ بہت ٹگھنے بلکہ میانہ قد لوگوں میں تھے آپ کے بال نہ تو بہت زیادہ گھونگریالے تھے نہ بالکل سیدھے تھے بلکہ خفیف سابل کھائے ہوئے ، نہ منہ بالکل گول اور بھاری تھا اور نہ گال پھولے ہوئے تھے ( بلکہ پورا چہرہ ستواں ، ورخسار یکساں وبرابر تھے اور پیشانی بلند تھی ) روئے مبارک کسی قدر گولائی لئے ہوئے تھا ، رنگ سرخ وسفید تھا آنکھیں سیاہ تھیں ، پلکیں بڑی بڑی تھیں ۔ جوڑوں کی ہڈیاں ابھری ہوئی اور مونڈھوں کا درمیانی حصہ (جہاں دونوں شانوں کی ہڈیاں آکرملتی ہیں ) مضبوط اور پرگوشت تھا ، جسم مبارک پر بال نہیں تھے صرف ایک لکیر بالوں کی تھی جو سینہ سے ناف تک چلی گئی تھی ہاتھ اور پاؤں بھرے ہوئے یعنی پرگوشت تھے جب راستہ چلتے توقوت کے ساتھ قدم اٹھاتے جیسے بلندی سے نیچے اتر رہے ہوں جب دائیں بائیں متوجہ ہونا ہوتا تو پورے جسم کی ساتھ متوجہ ہوتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں میں سب سے زیادہ دل کے سخی اور زبان کے نہایت سچے تھے طبیعت کے بہت نرم اور سب سے معزز ومکرم انسان تھے جو شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلی مرتبہ دیکھتا اس پر ہیبت طاری ہوجاتی تھی اور جو شخص آپ سے واقفیت رکھتا ہو اور میل جول رکھتا ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ محبت کرتا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ان صفات وخصوصیات کو بیان کرنے والے (حضرت علی کرم اللہ وجہہ) کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا کوئی شخص نہ تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے دیکھا اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دیکھا ، اللہ کی رحمت اور سلامتی ہوآپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ۔ ( ترمذی)

تشریح :
جسم مبارک پر بال نہیں تھے الخ ۔ اس جملہ سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ سینے سے ناف تک بالوں کی ایک لکیر کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک پر اور کہیں بال نہیں تھے ، جب کہ بعض دوسری روایتوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سینہ یا ناف کے علاوہ بھی بعض جگہوں جسے کلائی وبازو ، پنڈلیوں اور پہنچوں پر بال تھے ۔ لہٰذا کہا جائے گا کہ یہاں " اجرد " کا لفظ " اشعر " کے مقابلہ پر استعمال ہوا ہے " اور اشعر " سے مراد وہ شخص ہوتا ہے جس کے تمام بدن پر بال ہوں اور " اجرد " اس شخص کو کہتے ہیں جس کے پورے بدن پر بال نہ ہوں (بلکہ کہیں کہیں ہوں) ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو پورے جسم کے ساتھ متوجہ ہوتے ۔" کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دائیں بائیں کسی کو دیکھنا ہوتا یا کسی کی طرف متوجہ ہونا ہوتا تو بے اعتنائی برتنے والوں کی طرح نظر چرا کر نہ دیکھتے بلکہ پورے التفات کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہوتے یا یہ مطلب ہم کہ دائیں بائیں متوجہ ہونے کے لئے کم ظرف لوگوں کی طرح صرف اکڑی ہوئی گردن نہ گھماتے بلکہ ایک ہمدرد کی طرح اطمینان کے ساتھ اپنا منہ ادھر کو کر کے یاپورے وجود کے ساتھ گھوم کر اس کی طرف دیکھتے اور اپنی کامل توجہ کا اظہار فرماتے ۔
دل کے سخی " سے ہونے مراد یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دل وجان سے سخاوت کرتے تھے جس کے پیچھے ایک فطری جذبہ اور محض اخلاص وہمدردی کا تقاضہ ہوتا تھا نہ کہ دکھانے ، سنانے یا کسی جبرواکراہ کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سخاوت فرماتے تھے ۔ اور ملا علی قاری نے اس کے معنی یہ لکھے ہیں کہ لفظ " اجود " کو اگر " جودت " سے ماخوذ سمجھا جائے تو اس کی صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دل کے فراخ اور دلیر تھے ، اور اسی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کی خلاف مرضی باتوں سے اور ان پڑھ دیہاتی مسلمانوں کی تکلیف پہنچانے والی حرکتوں سے ملول اور تنگ دل نہ ہوتے تھے ۔ اور اگر اجود کو لفظ " جود " سے ماخوذ مانا جائے جس کے معنی عطاوبخشش کے ہیں تو پھر مطلب یہ ہوگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی بھی چیز دینے اور عطا کرنے میں ذرا سابھی بخل نہیں کرتے تھے ، خواہ مال ہو علم واخلاق ہو اور تہذیب وتربیت ہو ۔ اسی طرح زبان کے نہایت سچے تھے کہ ایک معنی تو یہی ہیں جو خود ترجمہ سے ظاہر ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ سچ بولنے والا اور حق گو کوئی دوسرا شخص نہیں تھا ، لفظ لہجۃ کی رعایت سے ایک یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو نہایت باوقار آپ صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا لہجہ نہایت شاندار اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان نہایت صاف تھی ، الفاظ کی ادئیگی نہایت برمحل ، موزوں اور مخارج حروف سے ہوتی تھی ۔
جو شخص پہلی مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتا الخ کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذاتی اور صاف وخصائل اور اخلاق واطوار سے وقفیت نہ رکھتے ہوئے پہلے پہل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آتا اور ملاقات کرتا تو اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باوقار شخصیت کا اس قدر رعب طاری ہوتا کہ وہ خوف محسوس کرنے لگتا لیکن جب کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھتا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج اور اخلاق کا تجربہ کرتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پرکیف صحبت کی اثر آفرینی محسوس کرتا تو ایک دم کھل اٹھتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت وکشش کا اسیر بن جاتا ۔

یہ حدیث شیئر کریں