کبھی کسی سے انتقام نہیں لیتے تھے :
راوی:
وعن عائشة قالت : ما خير رسول الله صلى الله عليه و سلم بين أمرين قط إلا أخذ أيسرهما ما لم يكن إثما فإن كان إثما كان أبعد الناس منه وما انتقم رسول الله صلى الله عليه و سلم لنفسه في شيء قط إلا أن ينتهك حرمة الله فينتقم لله بها . متفق عليه
اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی دو کاموں میں سے کسی ایک کام کو چن لینے کا اختیار دیا جاتا تو آپ ہمیشہ اسی کام کو چنتے جو ہلکا اور آسان ہوتا ، بشرطیکہ وہ گناہ کاموجب نہ ہوتا ، اگر وہ (ہلکا اور آسان ) کام گناہ کاموجب ہوتا تو آپ اس سے سب سے دور رہنے والے شخص ہوتے ۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذات کے لئے کبھی کسی بات کا انتقام نہیں لیتے تھے ، ہاں اگر کوئی ایسی بات ہوتی جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے (حکم کے) پیش نظر اس کی سزادیتے تھے ۔ ( بخاری ومسلم )
تشریح :
اس حدیث کی وضاحت میں علماء اور شارحین نے لکھا ہے کہ اختیار دینے کا تعلق اللہ تعالیٰ سے بھی ہوسکتا ہے اور لوگوں سے بھی ۔ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اختیار ملنا مراد ہو تو اس صورت میں یہ اشکال پیدا ہوگا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معصوم عن الخطا ہونانص سے ثابت ہے اور کسی گناہ کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت ہوہی نہیں سکتی ، اس لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی دوچیزوں میں سے کوئی ایک چیز پسند کرلینے کا اختیار کیسے دیا جاسکتا تھا جس میں سے کوئی بھی ایک چیز گناہ کاموجب ہوتی؟ اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ بشرطیکہ اس میں گناہ کی کوئی بات ہوتی ۔ میں گناہ سے مراد وہ چیز ہے جو بذات خود تو گناہ کی نہ ہو لیکن وہ کسی بھی درجہ میں گناہ تک پہنچانے کا احتمال رکھتی ہو۔ مثلا اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اخیتار دیا تھا کہ دنیاوی زندگی گذارنے کے لئے چاہے دنیا کے خزانے لے لیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیئے جائیں گے ، چاہے بقدر ضرورت وحاجت روزی پر قناعت کریں ، ان دونوں میں سے دوسری چیز کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار فرمایا اور پہلی چیز کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لئے پسند نہیں فرمایا کہ اگر دنیاوی مال ودولت کے خزانے بذات خود کوئی گناہ کی چیز نہیں لیکن اس بات کا احتمال ضرور ہوتا ہے کہ کوئی شخص اس کے کاروبار اور معاملات میں اس طرح مشغول ومصروف ہوجائے کہ عبادت اور دینی امور کی طرف ضروری توجہ بھی نہ دے سکے پس اس حدیث کا اطلاق اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اختیار ملنے پر کیا جائے تو یہ بات ضرور ملحوظ رکھی جائے کہ " گناہ " سے مراد واقعی گناہ نہیں ہے بلکہ وہ چیز مراد ہے جو گناہ کے احتمال کو ظاہر کرنے والی ہو اور ایسی چیز بذات خود گناہ میں شمار نہیں ہوتی ۔ لوگوں کی طرف سے اختیار ملنے کی دو صورتیں ہیں ۔ ایک تو یہ کہ کافروں کی طرف سے اختیار ملنا مراد ہو، اس صورت میں بالکل ظاہر ہے کہ ان دو چیزوں میں سے ایک چیز گناہ کا موجب ضرور ہوتی ہوگی اور دوسرے یہ کہ مسلمانوں کی طرف سے اختیار ملنا مراد ہو تو اس صورت میں گناہ سے مراد وہ چیز ہوگی جو گناہ کا باعث بنتی ہوجیسے مجاہدہ اور اقتصاد کے درمیان اختیار ملنا ،ظاہر ہے کہ مجاہدہ اگرچہ گناہ کی چیز نہیں ہے لیکن اگر مجاہدہ میں اتنی زیادتی اور شدت اختیار کی جائے جو ہلاکت تک پہنچا دے تو مجاہدہ ناجائز ہوگا ۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے اختیار ملنے کی صورت وہ بھی مراد ہوسکتی ہے جس کا تعلق آپ کی ذات سے نہیں ، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ سے دوسرں کی ذات سے ہو مثلا اگر اختیار دیا جاتا کہ آپ اپنی امت کے حق میں فلاں گناہ کی ان دو سزاؤں میں سے کسی ایک سزا کو پسند کر لیجئے تو آپ اس سزا کو پسند کرتے جو ہلکی ہوتی ، یا اگر یہ کہا جاتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے حق میں ان دوچیزوں میں سے اس چیز کو پسند فرماتے جو سزا کا مستوجب کرنے والی نہ ہوتی ، یا مثلا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار دیا گیا تھا کہ جو کفار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر تسلط آئیں ان کو چاہے قتل کردیجئے چاہے ان پر جزیہ عائد کر کے ان کے جان ومال اور آبرو کی حفاظت کیجئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جزیہ کی صورت کو پسند فرما لی ، اور یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کے حق میں اختیار دیا گیا تھا کہ اس کی عبادت میں چاہے مجاہدہ کو پسند کرلیں ، چاہے اقتصاد کو ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اقتصاد کو پسند فرمایا ۔
اپنی ذات کے لئے کبھی کسی بات کا انتقام نہیں لیتے تھے ۔ کے بارے میں ابن حجر نے لکھا ہے ! اس کی مراد یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کسی غلطی یا جرم کی سزا اپنی ذات کا انتقام لینے یا اپنی طبعی خواہش کی تکمیل کے لئے نہیں دیتے تھے ۔ اس وضاحت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل پر کوئی اشکال پیدانہیں ہوگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے کئی لوگوں کو قتل کرنے کا حکم صادر فرمایا جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت ایذائیں پہنچائی تھیں ان لوگوں کے قتل کا حکم اس جرم کی سزا دینے کے لئے تھا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حرام کی ہوئی باتوں کا ارتکاب کیا تھا اور اسلام دشمنی میں حد سے بڑھ جانے کے سبب اللہ کی طرف سے سزا کے مستوجب بن چکے تھے ۔