مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ معجزوں کا بیان ۔ حدیث 484

حضرت ابوہریرہ کا کثیر الروایت ہونا اعجاز نبوی کا طفیل ہے

راوی:

وعنه إنكم تقولون أكثر أبو هريرة عن النبي صلى الله عليه و سلم والله الموعد وإن إخوتي من المهاجرين كان يشغلهم الصفق بالأسواق وإن إخوتي من الأنصار كان يشغلهم عمل أموالهم وكنت امرأ مسكينا ألزم رسول الله صلى الله عليه و سلم على ملء بطني وقال النبي صلى الله عليه و سلم يوما : " لن يبسط أحد منكم ثوبه حتى أقضي مقالتي هذه ثم يجمعه إلى صدره فينسى من مقالتي شيئا أبدا " فبسطت نمرة ليس علي ثوب غيرها حتى قضى النبي صلى الله عليه و سلم مقالته ثم جمعتها إلى صدري فوالذي بعثه بالحق ما نسيت من مقالته تلك إلى يومي هذا . متفق عليه

" اور حضرت ابوہریرہ نے ایک دن تابعین کو مخاطب کر کے یا جیسا کہ بعض حضرات نے کہا ہے صحابہ متاخرین کو مخاطب کر کے کہا کہ تم جو یہ کہتے ہو کہ ابوہریرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت زیادہ حدیثیں نقل کرتے ہیں ( تو پہلے یہ سمجھ لو کہ ) اللہ کا وعدہ ( برحق ہے ) اور پھر سنو میں زیادہ حدیثیں بیان کرنے کا سبب تمہیں بتاتا ہوں کہ میرے مہاجر بھائیوں کو تو بازار میں ہاتھ پر ہاتھ مارنے ( یعنی خرید وفروخت کی مشغولیت الجھائے رکھتی تھی اور میرے انصار بھائیوں کو ان کی زمین جائیداد فرصت نہیں دیتی تھی ، جہاں تک میرا تعلق ہے تو میں ایک مسکین ومفلس شخص تھا اور پیٹ بھر کر کھانا مل جانے پر قناعت کر کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پڑا رہتا تھا ۔ پھر ایک دن ایسا ہوا کہ ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر تم میں سے کوئی شخص اپنا کپڑا پھیلائے اور اس وقت تک پھیلائے رہے جب تک میں اپنی بات ( یعنی دعا ) پوری نہ کر لوں اور پھر وہ شخص اپنے کپڑے کو سمیٹ کر اپنے سینہ سے لگالے تو یہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ وہ میرے بات ( حدیث ) کو کلی طور پر یا جزوی طور پر کبھی بھی بھول جائے ۔ چنانچہ میں نے ( فورا ) اپنی کملی پھیلا لی جس کے علاوہ میرے پاس اور کوئی کپڑا نہیں تھا اور اس کو اس وقت تک پھیلائے رکھا جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات پوری نہ کرلی اور پھر اس کو سمیٹ کر اپنے سینہ سے لگا لیا ، قسم ہے اس ذات کی جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا ( اس کے بعد سے ) آج تک میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہوا کوئی ارشاد نہیں بھولا ہوں ۔ " ( بخاری ومسلم )

تشریح :
" اللہ کا وعدہ برحق ہے " میں اللہ کے وعدہ سے مراد قیامت کا دن ہے ، اس بات سے حضرت ابوہریرہ کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن ہم سب کو اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے اگر میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرنے میں کمی بیشی یا خیانت کی ہوگی تو یقینا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مجھ کو سزا دے گا ، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرما دیا ہے کہ جو شخص مجھ پر جھوٹ باندھے یعنی میری طرف نسبت کرکے جھوٹی حدیث بیان کرے تو اس کو اپنا ٹھکانا دوزخ میں تیار سمجھنا چاہئے ۔
دوسرے صحابہ کی بہ نسبت حضرت ابوہریرہ زیادہ حدیثیں کیوں بیان کرتے ہیں ؟ خود انہوں نے اس کے دو سبب بیان کئے ہیں ، پہلا تو یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سب سے زیادہ حاضر باشی کی سعادت انہی کو حاصل تھی ، جیسا کہ حضرت ابوہریرہ نے بیان کیا مہاجر صحابہ جو زیادہ تر تجارت پیشہ تھے ، اپنی تجارت اور کاروباری مصروفیات کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہمہ وقت حاضر نہیں رہتے تھے ، اسی طرح انصار صحابہ اپنی زمین جائیداد کی مصروفیت جیسے کھجور کے باغات کی دیکھ بھال اور کھیتی باڑی وغیرہ میں لگے رہنے کے سبب بارگاہ نبوت میں خاص خاص اوقات میں ہی حاضر ہوتے تھے ان سب کے برعکس حضرت ابوہریرہ کا نہ گھر بار تھا نہ کاروبار ، زراعت اور نہ معاشی زندگی کی کوئی مشغولیت ، وہ تو ایک مفلس وقلاش انسان تھے ان کی قناعت کے لئے یہی بہت کافی تھا کہ کہیں سے کھانے پینے کی کوئی چیز آگئی اور انہوں نے اپنی بھوک مٹالی ، اس کے علاوہ اور کسی چیز کی نہ ان کو ضرورت تھی اور نہ خواہش اس وجہ سے وہ اپنا تقریبا سارا وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر باشی میں گزارتے تھے اور اسی بناء پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال ومعاملات کو دیکھنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو سننے کا سب سے زیادہ موقع ان ہی کو ملتا تھا ۔ حضرت ابوہریرہ نے جو دوسرا سبب بیان کیا وہ دراصل ارشادات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو سن کر جوں کا توں اپنے دماغ میں محفوظ رکھنے کا وہ خصوصی وصف تھا جو ایک سعادت کے طور پر انہیں اعجاز نبوی کے طفیل میں حاصل ہوا ، اس سعادت کے حصول کی جو صورت پیش آئی اور حضرت ابوہریرہ نے اس کا ذکر جن الفاظ میں کیا اس کی وضاحت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ میری امت کے جو لوگ مجھ سے حدیث سنیں وہ اس کو اچھی طرح یاد رکھیں تاکہ اس کے ذریعہ ہدایت وصلاح کا سلسلہ بلاکم وکاست جاری رہے ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن فرمایا کہ اس وقت میں اپنے پروردگار سے یہ دعا کرنے جارہا ہوں کہ میرے صحابہ میری جو حدیثیں سنیں وہ ان کے دماغ میں پوری طرح محفوظ رہیں ۔ لہٰذا اس موقع پر جو شخص اپنا کپڑا پھیلالے گا اور میری دعا ختم ہونے تک اس کپڑے کو پھیلائے رکھے گا اور اس کے بعد پھر اس کپڑے کو سمیٹ کر اپنے سینہ سے لگا لے گا تو اس دعا کی برکت سے ، جو پہلے کپڑے میں اور پھر کپڑے کے ذریعہ سینہ تک پہنچے گی اس کا حافظہ اس قدر قوی ہو جائے گا کہ وہ میری جو حدیث سنے گا اس کو زندگی بھر کبھی نہیں بھولے گا ، چنانچہ حضرت ابوہریرہ نے اپنی کملی کو جو اس وقت ان کے پاس واحد کپڑا تھا ، فورا پھیلا دیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا مانگنی شروع کر دی اور جب تک آپ دعا مانگتے رہے ، حضرت ابوہریرہ اپنی کملی پھیلائے بیٹھے رہے ، جب آنحضرت نے دعا ختم کرلی تو حضرت ابوہریرہ نے کملی کو سمیٹ کر اپنے سینہ سے لگا لیا ، اس کا اثر یہ ہوا کہ حضرت ابوہریرہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جو بھی ارشاد گرامی سنتے وہ جوں کا توں آپ کے دماغ میں محفوظ ہو جاتا اس طرح آپ کا سینہ اور دماغ احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا محفوظ گنجینہ بن گیا ۔

یہ حدیث شیئر کریں