حضرت جریر کے حق میں دعا
راوی:
وعن جرير بن عبد الله قال : قال لي رسول الله صلى الله عليه و سلم : " ألا تريحني من ذي الخلصة ؟ " فقلت : بلى وكنت لا أثبت على الخيل فذكرت ذلك للنبي صلى الله عليه و سلم فضرب يده على صدري حتى رأيت أثر يده في صدري وقال : " اللهم ثبته واجعله هاديا مهديا " . قال فما وقعت عن فرسي بعد فانطلق في مائة وخمسين فارسا من أحمس فحرقها بالنار وكسرها . متفق عليه
" اور حضرت جریر ابن عبداللہ بجلی کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ کیا تم ذولخلصہ کو توڑ کر مجھے راحت نہیں پہنچاؤ گے ؟ میں نے عرض کیا کہ ہاں ( اس کو توڑ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرور راحت پہنچاؤں گا ( لیکن میرے لئے ایک پریشانی یہ تھی کہ ) میں گھوڑے کی سواری پر پوری طرح قادر نہیں تھا اور کبھی کبھی گر پڑتا تھا ) لہٰذا میں نے نبی کریے صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا ( کہ ذو الخلصہ تک پہنچنے کے لئے گھوڑے پر سفر کرنا پڑے گا اور میں گھوڑے کی سواری پر پوری طرح قادر نہیں ہوں ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ( یہ سن کر ) میرے سینے پر ( اتنے زور سے ہاتھ مارا کہ میں نے اس کا اثر اپنے سینہ کے اندر تک محسوس کیا اور پھر ( میرے حق میں ) یہ دعا فرمائی : اے اللہ ! اس ( جریر ) کو ( ظاہر وباطن میں ) ثابت وقائم رکھ اور اس کو راہ راست دکھانے والا اور راہ راست پانے والا بنا ۔ حضرت جریر کہتے ہیں کہ اس دعا کے بعد میں کبھی گھوڑے سے نہیں گرا ، اور پھر احمس کے ڈیڑھ سو سواروں کو لے کر جریر ( ذولخلصہ توڑنے کے لئے ) روانہ ہوئے ، وہاں پہنچ کر انہوں نے ذوالخلصہ کو آگ لگا دی اور اس کو توڑ پھوڑ ڈالا ۔ " ( بخاری ومسلم )
تشریح :
ذوالخلصہ ( یا ذو الخصلہ ) عرب کے قبیلہ خثعم کے بت خانہ کا نام تھا اس کو کعبۃ الیمامہ بھی کہا جاتا تھا ، اس میں ایک بہت بڑا بت تھأ جس کا نام خلصہ تھا ، اس بت کی بڑے پیمانہ پر پوجا ہوتی تھی ، یہ صورت حال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے انتہائی تکلیف دہ تھی اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جریر سے فرمایا کہ اگر تم بت خانہ کو توڑ پھوڑ ڈالو تو مجھے چین مل جائے ۔
اس سے معلوم ہوا کہ نفوس مقدسہ اور کاملین کو غیرہ اللہ کی عبادت وپرستش اور خلاف شرع امور دیکھ کر سخت صدمہ ہوتا ہے اور اذیت محسوس ہوتی ہے ۔
" احمس " جو احمر کے وزن پر ہے ، دراصل لفظ " حماسہ " سے بنا ہے جس کے معنی شجاعت وبہادری کے ہیں ، قریش کے کچھ قبیلے جو شجاعت وبہادری اور جنگجوئی میں امتیازی حیثیت رکھتے تھے ان کو " احمس " کہا جاتا ہے ۔
" اور پھر " احمس " کے ڈیڑھ سو سواروں کو لے کر جابر روانہ ہوئے ۔۔ الخ۔ ٰ" روایت میں اس آخری جزء کے بارے میں شارحین نے لکھا ہے کہ یہ اس راوی کے الفاظ ہیں جس نے اس روایت کو حضرت جریر سے نقل کیا ہے ، لیکن بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ یہ جملے بھی اصل روایت ہی کے ہیں اور حضرت جریر کے اپنے الفاظ ہیں روایت میں یہاں پہنچ کر انہوں نے وہ اسلوب اختیار کیا جس کو التفات کہا جاتا ہے ۔ یعنی اس جملہ میں انہوں نے اپنے ذکر کے لئے متکلم کا صیغہ چھوڑ کر غائب کا صیغہ اختیار کیا ۔