مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ معجزوں کا بیان ۔ حدیث 489

مدینہ کی حفاظت کے بارے میں معجزانہ خبر

راوی:

وعن أبي سعيد الخدري قال : خرجنا مع النبي صلى الله عليه و سلم حتى قدمنا عسفان فأقام بها ليالي فقال الناس : ما نحن ههنا في شيء وإن عيالنا لخلوف ما نأمن عليهم فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه و سلم فقال : " والذي نفسي بيده ما في المدينة شعب ولا نقب إلا عليه ملكان يحرسانها حتى تقدموا إليها " ثم قال : " ارتحلوا " فارتحلنا وأقبلنا إلى المدينة فوالذي يحلف به ما وضعنا رحالنا حين دخلنا المدينة حتى أغار علينا بنو عبد الله بن غطفان وما يهيجهم قبل ذلك شيء . رواه مسلم

" اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ( مکہ سے مدینہ روانہ ہوئے ) اور جب ( مکہ سے تقریبا ٣٢ میل کے فاصلہ پر ) مقام عسفان پہنچے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں کئی راتیں قیام کیا بعض لوگوں ( یعنی منافقوں اور ضعیف الاسلام لوگوں نے ( اس جگہ کے قیام سے گھبرا کر ) کہا کہ ہم یہاں بیکار کیوں پڑے ہوئے ہیں جب کہ ہمارے اہل وعیال ہم سے دور ( مدینہ میں تنہا ) ہیں اور ہمیں ان کے بارے میں اطمینان نہیں ہے ( کہ ہماری عدم موجودگی ) کا فائدہ اٹھا کر کہیں کوئی دشمن ان کی غارت گری پر نہ اتر آئے ) ان لوگوں کی یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک بھی پہنچی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ( سن کر ) فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے مدینہ کا کوئی راستہ اور کوئی کوچہ ایسا نہیں ہے جس پر دو دو فرشتے متعین نہ ہوں اور وہ فرشتے ( مدینہ کے راستوں اور کوچوں کی ) نگہبانی اور حفاظت پر اس وقت تک مامور رہیں گے جب تک تم مدینہ نہیں پہنچ جاؤ گے ۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں سے کوچ کا حکم دیا اور ہم روانہ ہوئے اور مدینہ پہنچ گئے، قسم ہے اس ذات کی جس کی قسم کھائی جاتی ہے ( یعنی اللہ کی قسم ) ہم نے ( مدینہ پہنچ کر ) ابھی ( اپنے اونٹوں کی پیٹھ سے ) اپنا سامان بھی نہیں اتارا تھا کہ ( اچانک ) بنو عبداللہ بن غطفان ہم ( اہل مدینہ ) پر چڑھ آئے جب کہ ہمارے آنے سے پہلے ایسی کوئی بات پیش نہیں آئی جوان کو جنگ پر ابھارنے والی ہوتی ۔ " ( مسلم )

تشریح :
لفظ شعب کے لغوی معنی اس راستہ کے ہیں جو پہاڑ کے درمیان سے گزرتا ہو ، اسی طرح " نقب " کے معنی بھی اس راستہ کے ہیں جو پہاڑوں کے درمیان ہو ، لیکن یہاں حدیث میں شعب سے مراد وہ راتسہ ہے جو شہر وآبادی میں آنے جانے کا ذریعہ ہو اور نقب سے مراد وہ گزرگاہ ہے جو دونوں طرف بنے ہوئے مکانات کے درمیان ہو جس کو گلی اور کوچہ کہتے ہیں ، جیسا کہ ایک حدیث میں آیا ہے : انقاب مدینہ ( مدینہ کی گلی کوچوں ) پر فرشتے متعین ہیں ان کی وجہ سے مدینہ شہر میں نہ تو طاعون آئے گا اور نہ دجال داخل ہوسکے گا۔
" بنو عبداللہ ابن غطفان ہم پڑ چڑھ آئے ۔ " بنو عبداللہ ابن غطفان ایک قبیلہ کا نام ہے مطلب یہ کہ ہم لوگوں کی عدم موجودگی میں مدینہ بالکل محفوظ تھا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور معجزہ ہمیں بتایا تھا اور اس وقت تک ہمارے کسی بھی دشمن کے جارحانہ عزائم کی راہ میں فرشتوں کی نگہبانی اور حفاظت گیری کے علاوہ کوئی بھی ظاہری رکاوٹ نہیں تھی ، چنانچہ مدینہ پہنچنے کے بعد ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی اس خبر کی صداقت کا مشاہدہ کر لیا کہ جب تک ہم لوگ مدینہ نہیں پہنچے فرشتوں کی نگہبانی کی وجہ سے کوئی بھی دشمن حملہ آور نہیں ہو سکا اور نہ ہمارے اہل وعیال کو کوئی نقصان پہنچا سکا ، ہمارے مدینہ پہنچتے ہی ایک ایسادشمن قبیلہ ہم پر حملہ آور ہوگیا جس کے حملہ کا باعث ہماری آمد سے پہلے پیدا نہیں ہوا تھا ، ایسا محسوس ہوا کہ محض ہمیں نقصان پہچانے کے لئے اس دشمن کو حملہ آور ہونا پڑا اور ہماری عدم موجودگی اس کے جارحانہ عزائم کی تکمیل کا بہترین موقع ثابت ہونا چاہئے تھی، مگر یہ غیبی طاقت ہی تھی جس نے اس دشمن سے ہمارے اہل وعیال کی حفاظت کی اور اس کو ہماری عدم موجودگی میں مدینہ میں داخل نہیں ہونے دیا اور آبادی پر حملہ کرنے سے باز رکھا ۔

یہ حدیث شیئر کریں