حاکم کی طرف سے وصیت ۔
راوی: محمد بن یحییٰ , محمد بن یوسف , سفیان , علقمہ بن مرثد , ابی بریدہ , بریرہ
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ الْفِرْيَابِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَمَّرَ رَجُلًا عَلَی سَرِيَّةٍ أَوْصَاهُ فِي خَاصَّةِ نَفْسِهِ بِتَقْوَی اللَّهِ وَمَنْ مَعَهُ مِنْ الْمُسْلِمِينَ خَيْرًا فَقَالَ اغْزُوا بِاسْمِ اللَّهِ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ قَاتِلُوا مَنْ کَفَرَ بِاللَّهِ اغْزُوا وَلَا تَغْدِرُوا وَلَا تَغُلُّوا وَلَا تَمْثُلُوا وَلَا تَقْتُلُوا وَلِيدًا وَإِذَا أَنْتَ لَقِيتَ عَدُوَّکَ مِنْ الْمُشْرِکِينَ فَادْعُهُمْ إِلَی إِحْدَی ثَلَاثِ خِلَالٍ أَوْ خِصَالٍ فَأَيَّتُهُنَّ أَجَابُوکَ إِلَيْهَا فَاقْبَلْ مِنْهُمْ وَکُفَّ عَنْهُمْ ادْعُهُمْ إِلَی الْإِسْلَامِ فَإِنْ أَجَابُوکَ فَاقْبَلْ مِنْهُمْ وَکُفَّ عَنْهُمْ ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَی التَّحَوُّلِ مِنْ دَارِهِمْ إِلَی دَارِ الْمُهَاجِرِينَ وَأَخْبِرْهُمْ إِنْ فَعَلُوا ذَلِکَ أَنَّ لَهُمْ مَا لِلْمُهَاجِرِينَ وَأَنَّ عَلَيْهِمْ مَا عَلَی الْمُهَاجِرِينَ وَإِنْ أَبَوْا فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّهُمْ يَکُونُونَ کَأَعْرَابِ الْمُسْلِمِينَ يَجْرِي عَلَيْهِمْ حُکْمُ اللَّهِ الَّذِي يَجْرِي عَلَی الْمُؤْمِنِينَ وَلَا يَکُونُ لَهُمْ فِي الْفَيْئِ وَالْغَنِيمَةِ شَيْئٌ إِلَّا أَنْ يُجَاهِدُوا مَعَ الْمُسْلِمِينَ فَإِنْ هُمْ أَبَوْا أَنْ يَدْخُلُوا فِي الْإِسْلَامِ فَسَلْهُمْ إِعْطَائَ الْجِزْيَةِ فَإِنْ فَعَلُوا فَاقْبَلْ مِنْهُمْ وَکُفَّ عَنْهُمْ فَإِنْ هُمْ أَبَوْا فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ عَلَيْهِمْ وَقَاتِلْهُمْ وَإِنْ حَاصَرْتَ حِصْنًا فَأَرَادُوکَ أَنْ تَجْعَلَ لَهُمْ ذِمَّةَ اللَّهِ وَذِمَّةَ نَبِيِّکَ فَلَا تَجْعَلْ لَهُمْ ذِمَّةَ اللَّهِ وَلَا ذِمَّةَ نَبِيِّکَ وَلَکِنْ اجْعَلْ لَهُمْ ذِمَّتَکَ وَذِمَّةَ أَبِيکَ وَذِمَّةَ أَصْحَابِکَ فَإِنَّکُمْ إِنْ تُخْفِرُوا ذِمَّتَکُمْ وَذِمَّةَ آبَائِکُمْ أَهْوَنُ عَلَيْکُمْ مِنْ أَنْ تُخْفِرُوا ذِمَّةَ اللَّهِ وَذِمَّةَ رَسُولِهِ وَإِنْ حَاصَرْتَ حِصْنًا فَأَرَادُوکَ أَنْ يَنْزِلُوا عَلَی حُکْمِ اللَّهِ فَلَا تُنْزِلْهُمْ عَلَی حُکْمِ اللَّهِ وَلَکِنْ أَنْزِلْهُمْ عَلَی حُکْمِکَ فَإِنَّکَ لَا تَدْرِي أَتُصِيبُ فِيهِمْ حُکْمَ اللَّهِ أَمْ لَا قَالَ عَلْقَمَةُ فَحَدَّثْتُ بِهِ مُقَاتِلَ بْنَ حَيَّانَ فَقَالَ حَدَّثَنِي مُسْلِمُ بْنُ هَيْضَمٍ عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ مُقَرِّنٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ ذَلِکَ
محمد بن یحییٰ، محمد بن یوسف، سفیان، علقمہ بن مرثد، ابی بریدہ، حضرت بریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب کسی شخص کو سردار مقرر فرماتے کسی حصے (لشکر) کا تو اس کو اپنی ذات کیلئے اللہ سے ڈرنے کی وصیت فرماتے اور جو دیگر مسلمان ان کے ہمراہ ہوتے ان سے نیک سلوک کرنے کی (تلقین کرتے) اور آپ نے فرماتے جہاد کرو اللہ کا نام لے کر اور جو اللہ عزوجل کو نہ مانے اس سے لڑو جہاد کرو اور عہد مت توڑو اور چوری نہ کرنا اور مثلہ سے ممانعت فرماتے اور بچوں کو مت مارو اور جب دشمن سے ملو یعنی مشرکین سے تو ان کو بلاؤ ان باتوں میں سے ایک کی طرف پھر ان میں سے جس بات پر وہ راضی ہوں اس کو مان لے اور ان کو ستانے سے رک جا۔ (تین باتیں مندرجہ ذیل ہیں) ان کو اسلام کی دعوت دے اور اگر وہ مان لیں تو رکا رہ ان (کو تکلیف دینے) سے لیکن کہہ ان سے کہ اپنے ملک سے مسلمانوں کے ملک میں ہجرت کرلیں گے تو جو فائدہ مہاجرین کو میسر آئے وہ ان کو بھی آئیں گے اور جو سزائیں (قصور کے بدلے) مہاجرین کو ملتی ہیں وہ انہیں بھی ملیں گی اور اگر وہ ہجرت سے انکاری ہوں تو ان کا حکم گنوار دیہاتی مسلمانوں جیسا ہوگا اور اللہ کا حکم جو مومنوں پر جاری ہوتا ہے ان پر (بھی) جاری ہوگا اور ان کو لوٹ کے مال میں اور اس مال میں جو بلاجنگ کافروں سے ہاتھ آئے کچھ میسر نہ آئے گا مگر اس حالت میں جب وہ جہاد کریں مسلمانوں کے ساتھ مگر وہ اسلام لانے سے انکار کریں تو ان سے کہہ جزیہ دینے کیلئے۔ اگر وہ جزیہ دینے پر راضی ہو جائیں تو مان جا اور ان (کو قتل کرنے) سے باز رہ۔ اگر وہ جزیہ دینے سے انکار کریں تو اللہ عزوجل سے مدد طلب کر اور ان سے جنگ کر اور جب تو کسی قلعہ کا محاصرہ کرے پھر قلعہ والے تجھ سے کہیں کہ تو ان کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذمہ دے تو مت ذمہ دے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بلکہ اپنا اپنے باپ کا اور اپنے ساتھیوں کا ذمہ دے۔ اس لئے کہ اگر تم نے اپنا ذمہ یا اپنے باپ دادوں کا ذمہ توڑ ڈالا تو یہ اس سے آسان ہے کہ تم اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذمہ توڑو اور اگر تو کسی قلعہ کا محاصرہ کرلے پھر قلعہ والے یہ چاہیں کہ اللہ کے حکم پر وہ قلعہ سے نکل آئیں گے تو اس شرط پر ان کو مت نکال بلکہ اپنے حکم پر نکال۔ اس لئے کہ تو (ہرگز) نہیں جان سکتا کہ اللہ کے حکم پر ان کے بارے میں چل سکے گا یا نہیں۔ علقمہ نے کہا میں نے یہ حدیث مقاتل بن حبان سے بیان کیا نہوں نے مجھ سے مسلم بن ہضم سے انہوں نے نعمان بن مقرن سے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایسی ہی حدیث نقل کی ۔
It was narrated from Ibn Buraidah that his father said: "Whenever he appointed a man to lead a military detachment, the Messenger of Allah P.B.U.H would advise him especially to fear Allah and treat the Muslims with him well. He said: 'Fight in the Name of Allah and in the cause of Allah. Fight those who disbelieve in Allah. Fight but do not be treacherous, do not steal from the spoiIs of war, do not mutilate and do not kill children. When you meet your enemy from among the polytheists, call them to one of things. Whichever of them they respond to, accept it from them and refrain from fighting them. Invite them to accept Islam, and if they respond then accept it from them and refrain from fighting them. Then invite them to leave their land and move to the land of the polytheists. Tell them that if they do that, then they will have the same rights and duties as the polytheists. If they refuse, then tell them that they will be like the Muslim Bedouins (who live in the desert), subject to the same rulings of Allah as the believers. But they will have no share of Fay' or war spoils, unless they fight alongside the Muslims. If they refuse to enter Islam, then ask them to pay the Poll tax. If they do that, then accept it from them and refrain from fighting them. But if they refuse, then seek the help of Allah against them and fight them. If you lay siege to them and they want you to give them the protection of Allah and your Prophet, do not give them the protection of Allah and your Prophet, rather give them your protection and the protection of your father and of your Companions, for if you violate your protection and the protection of your fathers, that is easier for you than violating the protection of Allah and the protection of His Messenger. If you lay siege to them and they want you to let them come out with a promise of the judgement of Allah and His Messenger P.B.U.H do not offer them a promise of the judgement of Allah and His Messenger P.B.U.H, rather offer them your judgement, because you do not know if you will actually pass (the same as) Allah's judgment regarding them or not.''' (Sahih) Another chain with similar wording.