اونٹ سے متعلق معجزہ
راوی:
وعن جابر قال : غزوت مع رسول الله صلى الله عليه و سلم وأنا على ناضح لنا قد أعيا فلا يكاد يسير فتلاحق بي النبي صلى الله عليه و سلم فقال لي ما لبعيرك قلت : قدعيي فتخلف رسول الله صلى الله عليه و سلم فزجره ودعا له فما زال بين يدي الإبل قدامها يسير فقال لي كيف ترى بعيرك قال قلت بخير قد أصابته بركتك قال أفتبيعنيه بوقية . فبعته على أن لي فقار ظهره حتى المدينة فلما قدم رسول الله صلى الله عليه و سلم المدينة غدوت عليه بالبعير فأعطاني ثمنه ورده علي . متفق عليه
" اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں ایک جہاد کے سفر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھا اور آب کش اونٹ پر سوار تھا، وہ اونٹ ( اتنا زیادہ ) تھک گیا تھا) کہ جیسا اس کو چلنا چاہئے تھا اس طرح چلنے پر قادر نہیں تھا ( ایک جگہ پہنچ کر ) میرا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ ہوگیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمہارے اونٹ کو کیا ہوگیا ہے ( کہ اچھی طرح نہیں چل رہا ہے ) میں نے کہا کہ تھک گیا ہے ( یہ سن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے اونٹ کے پیچھے آگئے اور ( یا تو کسی چیز سے مار کر یا محض آواز کے ذریعہ ) اس کو ہانکا اور پھر اس کے حق میں ( تیز روی کی ) دعا فرمائی اس کا اثر یہ ہوا کہ میرا اونٹ سب سے آگے رہنے لگا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : ( کہو ) اب تمہارے اونٹ کا کیا حال ہے ؟ میں نے عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے اب خوب چلتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تم اس اونٹ کو چالیس درہم کے بدلے بیچٹے ہو ؟ میں نے اس شرط پر اس اونٹ کو ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ ) بیچ دیا کہ مدینہ تک یہ اونٹ میری ہی سواری میں رہے گا ۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ہم لوگ ) جب مدینہ پہنچ گئے تو اگلے ہی دن صبح کو میں اونٹ لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ( تاکہ اونٹ سپرد کر کے اس کی طے شدہ رقم لے لوں ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاملہ کے مطابق ) قیمت مجھے عطا فرما دی لیکن ( ازراہ ) عنایت وہ اونٹ بھی مجھ ہی کو دے دیا ۔ " ( بخاری ومسلم )
تشریح :
میں نے اس شرط پر اس اونٹ کو بیچ دیا ۔۔ الخ۔ " سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی چیز بیچتے وقت ایسی شرط عائد کرنا جس سے بیچنے والے کو فائدہ ہو جائز ہے حالانکہ مسئلہ کی رو سے یہ جائز نہیں ہے ! پس یا تو اس مسئلہ میں یہ حدیث منسوخ کے حکم میں ہے یا یہ کہ مذکورہ شرط کا تعلق عین عقد سے نہیں تھا بلکہ خرید وفروخت کا معاملہ ہو جانیکے بعد یا تو حضرت جابر کی درخواست پر یا خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عنایت سے یہ طے پایا کہ مدینہ تک یہ اونٹ جابر کی سواری میں رہے گا تا ہم یہ وضاحت حدیث کی ظاہری عبارت سے میل نہیں رکھتی ۔