فتح مصر کی پیش گوئی
راوی:
وعن أبي ذر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إنكم ستفتحون مصر وهي أرض يسمى فيها القيراط فإذا فتحتموها فأحسنوا إلى أهلها فإن لها ذمة ورحما أو قال : ذمة وصهرا فإذا رأيتم رجلين يختصمان في موضع لبنة فاخرج منها " . قال : فرأيت عبد الرحمن بن شرحبيل بن حسنة وأخاه يختصمان في موضع لبنة فخرجت منها . رواه مسلم
اور حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یقینا وہ وقت قریب ہے ، جب تم مصر کو فتح کر لوگے اور مصر وہ زمین ہے جہاں " قیراط " بولا جاتا ہے ۔ جب تم مصر کو فتح کر لو تو وہاں کے لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا کیونکہ ان کو امان ہے اور ان سے قرابت ہے ۔ یا یہ فرمایا کہ ۔ ان کو امان ہے ۔ اور ان سے سسرالی رشتہ ہے ، اور جب تم لوگ دیکھو کہ وہاں دو آدمی ایک اینٹ کی جگہ پر جھگڑا کر تے ہیں ، تو تم وہاں سے نکل آنا ۔ حضرت ابوذر کہتے ہیں کہ میں نے ( اپنے قیام مصر کے دوران ) عبدالرحمن ابن شرجیل ابن حسنہ اور اس کے بھائی ربیعہ کو ایک اینٹ کی جگہ پر جھگڑتے دیکھا تو سر زمین مصر سے نکل آیا ۔ " ( مسلم )
تشریح :
" قیراط " ایک سکہ کا نام تھا جو پانچ جو سونے کے برابر ہوتا تھا اور اس زمانہ میں مصر میں رائج تھا ، مصر کے علاوہ دوسرے علاقوں میں بھی " قیراط " کا چلن تھا اور مختلف اوزان ومالیت رکھتا تھا مثلا مکہ معظمہ اور اس کے علاقوں میں ایک قیراط دینار کے چوبیس حصہ کے برابر اور عراق میں دینار کے بیسویں حصہ کے برابر ہوتا تھا ۔
" جہاں قیراط بولا جاتا ہے " کے ذریعہ نہ صرف یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سکہ سے مصر کا تعارف کرایا اور پتہ بتایا بلکہ اس طرف بھی اشارہ فرمایا کہ اس ملک کے لوگ ، جو اس وقت قبطی کافر تھے ، دناء ۃ اور خست کا مزاج رکھتے تھے جس کی علامت یہ ہے کہ ان کی زبان پر " قیراط " کا ذکر بہت رہتا تھأ ۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ عالی حوصلہ اور کریم النفس ہوتے ہیں ان کی زبان پر حقیر وخسیس چیزوں کا ذکر زیادہ نہیں رہتا ۔
" وہاں کے لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا " ۔ اس ہدایت کا مطلب یہ تھا کہ اگرچہ مصری لوگ اپنی مخصوص مزاجی کیفیت ( یعنی دناء وخست ) کے اعتبار سے تم لوگوں کے لئے تکلیف دہ ہوں گے مگر اس کے باوجود ان کے ساتھ تمہیں اچھا سلوک کرنا چاہئے ۔ اگر تم ان کے ایسے افعال واعمال دیکھو جو تمہارے نزدیک برے ہوں اور ان سے تمہیں ذہنی یا جسمانی اذیت پہنچتی ہو تو تم بہر حال ان سے عفو ودرگزر کا معاملہ کرنا ، ایسا نہ ہو کہ ان کی کسی بات یا کسی فعل سے مشتعل ہو کر تم ان کو تکلیف پہنچانے کے درپے ہو جاؤ ۔ اور یہ ہدایت اس لے ہے کہ مصریوں سے ہمارے دو خصوصی تعلق ہیں ایک تو اس امان وحرمت کے سبب جو ہمارے بیٹے ابراہیم ابن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے مصریوں کو حاصل ہے ، ابراہیم کی والدہ جن کا نام ماریہ قبطیہ تھا ، مصری قوم ہی سے تعلق رکھتی تھیں ، اور ان سے دوسرا تعلق یہ ہے کہ ہمارے جد امجد حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسبت سے مصریوں سے ہماری قرابت بھی ہے ، حضرت اسماعیل علیہ السلام کی والدہ حضرت ہاجرہ مصری النسل تھیں " ۔
" یا یہ فرمایا کہ ۔ ان کو امان ہے اور ان سے سسرالی رشتہ ہے " ۔ یہاں الفاظ اوشک کے لئے ہے جس کے ذریعہ راوی نے یہ ظاہر کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یا تو فان لہا ذمۃ ورحما کے الفاظ ارشاد فرمائے تھے ، یا فان لہا ذمۃ وصھرا کے الفاظ ، اس دوسری روایت کی صورت میں ذمہ ( امان ) کا تعلق حضرت ہاجرہ کی نسبت سے ہوگا اور مصاہرت ( سسرالی رشتہ ) کا تعلق حضرت ماریہ قبطیہ کی نسبت سے ۔
جب تم لوگ دیکھو کہ وہاں دو آدمی ۔۔ الخ۔ " ان الفاظ کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے گویا اہل مصر کی ( دناءۃ اور خست کا حال بیان فرمایا کہ وہ لوگ ایک ایک اینٹ کی جگہ کے لئے لڑتے جھگڑتے ہیں ۔ اس جملہ میں جو را تم ( تم لوگ دیکھو ) کا لفظ ( بصغیہ جمع ) فرمایا گیا ہے ، اس کی مناسبت سے آگے جمع ہی کے صیغہ فاخر جوا ( تو تم لوگ وہاں سے نکل آنا ) کا لفظ استعمال ہونا چاہئے تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واحد کا صیغہ و اخرج استعمال فرما کر صرف حضرت ابوذر کو خطاب فرمایا جو حضرت ابوذر کے تئیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خصوصی تعلق اور کمال شفقت پر دلالت کرتا ہے ، لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عمومی ہی مراد ہو ۔
مصر حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں فتح ہوا اور حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہاں اپنے قیام کے دوران دو آدمیوں کو ایک اینٹ کی جگہ پر جھگڑتے دیکھا تو فورا مصر چھوڑ کر چلے آئے ، یہ حضرت عثمان غنی کی خلافت کے زمانہ کا واقعہ ہے ۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب سے معلوم ہوگیا تھا کہ ایک اینٹ کی جگہ پر جھگڑنا دراصل مصریوں کی خصومت ، جنگ جوئی اور فتنہ آرائی کی وہ علامت ہوگی جس کے پیچھے فتنہ وفساد اور شرانگیزی کا جنم لینا والا ایک طویل سلسلہ چھپا ہوگا اور جس کے نتیجہ میں مسلامانوں اور اسلام کو زبر دست نقصان سے دوچار ہونا ہوگا ، چنانچہ بعد میں مصریوں کا خلافت عثمانی سے بغاوت کرکے مدینہ پر چڑھ آنا ، حضرت عثمان کو شہید کر دینا اور پھر مصر میں حضرت علی کی طرف سے تعینات حاکم حضرت محمد ابن ابوبکر کو قتل کردینا وہ واقعات ہیں جن کا علم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے ہوگیا تھا ، اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوذر کو ہدایت اور وصیت فرمائی کہ جب مصر میں ذرا سی بات میں دو آدمیوں کے درمیان جھگڑا ہونے لگے تو تم ان سے ملنے جلنے ان کے درمیان رہنے اور ان کے ملک میں قیام کرنے سے اجتناب کرنا ، چنانچہ حضرت ابوذر نے ایسا ہی کیا ۔