مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ معجزوں کا بیان ۔ حدیث 505

منافقوں کے عبرتناک انجام کی پیش خبری

راوی:

وعن حذيفة عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : " في أصحابي وفي رواية قا ل : في أمتي اثنا عشر منافقا لا يدخلون الجنة ولا يجدون ريحها حتى يلج الجمل في سم الخياط ثمانية منهم تك ( فيهم الدبيلة : سراج من نار يظهر في أكتافهم حتى تنجم في صدورهم " . رواه مسلم
وسنذكر حديث سهل بن سعد : " لأعطين هذه الراية غدا " في " باب مناقب علي " رضي الله عنه
وحديث جابر " من يصعد الثنية " في " باب جامع المناقب " إن شاء الله تعالى

" اور حضرت حذیفہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " میرے صحابہ میں ۔ ایک اور روایت میں یہ ہے کہ ۔ میری امت میں بارہ منافق ہیں جو جنت میں نہیں داخل ہوں گے بلکہ جنت کی بو بھی نہیں پائیں گے جب تک کو سوئی کے ناکہ میں سے اونٹ نہ گز جائے ۔ اور ان بارہ میں آٹھ منافقوں کو تو دبیلہ نمٹا دے گا ( یعنی ان کو ہلاک کرے ان کے شر اور فتنہ کو ختم کر دے گا ) وہ ( دبیلہ ) ایک آگ کا شعلہ ہوگا جو ان کے مونڈھوں میں پیدا ہوگا اور پھر سینوں یعنی پیٹوں تک پہنچ جائے گا ۔ " ( مسلم )
او ہم حضرت سہل ابن سعد کی روایت لا عطین ہذہ ارایۃ کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے مناقب میں اور حضرت جابر کی روایت من یصعد الثنیۃ کو جامع المناقب میں نقل کریں گے ۔ ( انشاء اللہ تعالیٰ )

تشریح :
جب تک کہ سوئی کے ناکے میں سے اونٹ نہ گزر جائے " یہ مبالغہ اور تعلیق بالمحال ہے ، مطلب کہ جس طرح سوئی کے ناکہ میں سے اونٹ کا گزرنا محال اور نا ممکن ہے ، اسی طرح ان منافقوں کا جنت میں جانا محال اور نا ممکن ہے ، قرآن میں بھی یہ الفاظ آئے ہیں اور وہاں یہ بات کفار کے حق میں فرمائی گئی ہے ۔ ولا یدخلون الجنۃ حتی یلج الجمل فی سم الخیاط یعنی : اور وہ کافر جنت میں داخل نہیں ہونگے ، جب تک کہ سوئی کے ناکے میں سے اونٹ نہ گزر جائے ۔
واضح رہے کہ " امت ع' کا اطلاق منافقوں پر ہو سکتا ہے اگر امت سے مراد امت دعوت ہو ، لہٰذا میری امت میں بارہ منافق ہیں ۔ میں " میری امت " سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد امت دعوت ہی تھی یعنی انسانیت عامہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اسلام کی مخاطب ہے اور جس کو اسلام کی طرف بلانا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد ہے ، ہاں " منافقوں " پر " صحابہ " کا اطلاق نہیں ہو سکتا ، لہٰذا ' ' میرے صحابہ میں بارہ منافق ہیں " کی تاویل کی جائے گی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان منافقوں پر صحابہ کا اطلاق ان کے ظاہر احوال کے اعتبار سے کیا کہ اگرچہ ان کے اندر نفاق تھا لیکن بظاہر وہ کلمہ گو تھے اور اپنی اس ظاہری حیثیت کی بناء پر وہ جماعت صحابہ سے اختلاط رکھتے اور ان کے درمیان رہتے سہتے تھے ، مطلب یہ کہ ان کے ظاہری احوال کے اعتبار سے اور صحابہ کے ساتھ ان کے اختلاط کو دیکھتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مجاذا صحابی فرمایا اس اعتبار سے " امت " کے بارے میں بھی کہا جا سکتا ہے ، کہ " امت دعوت " نہیں بلکہ " امت اجابت " ہی مراد ہے ۔
حضرت حذیفہ کی ایک روایت میں منقول ہے کہ ان منافقین کی تعداد چودہ ١٤تھی لیکن ان میں سے دو نے توبہ کرلی تھی اور بارہ نفاق پر قائم رہے اور جیسا کہ مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی وہ بدبخت اسی حالت میں مرے ۔ بہر حال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعض مخصوص اور مقرب صحابہ کو ان منافقین کے بارے میں تشخص کے ساتھ بتا دیا تھا ، تاکہ وہ ان کے مکرو فریب اور فتنہ پردارزیوں سے ہوشیار رہیں ، ان منافقین نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اپنے عناد آمیز عزائم کے تحت جو فتنہ پردازیاں کیں ان کے ذکر سے اسلامی تاریخ بھری پڑی ہے ، ان بدبختوں کے مکروہ عزائم کا نقطہ عروج اس وقت سامنے آیا جب انہوں نے غزوہ تبوک سے واپسی کے سفر کے دوران ایک گھاٹی میں دغا اور فریب کی راہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو محفوظ رکھا ۔
" دبیلۃ " دبل یا دبلۃ کی تصغیر ہے ، جس کے معنی اس پھوڑے کی ہیں جو پیٹ میں ہوتا ہے اور جس کے سبب اکثر موت واقع ہو جاتی ہے ، بعض حضرات نے کہا ہے کہ " دبیلہ " طاعون کا ورم مراد ہے جس کو انگریزی میں پلیگ کہتے ہیں ویسے ' ' دبل " کے ایک معنی آفت اور مصیبت کے بھی ہیں ۔
جو ان کے مونڈھوں میں پیدا ہوگا ۔۔ الخ۔ ان الفاظ کے ذریعہ دبیلہ کی وضاحت کی گئی ہے اور بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ الفاظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اصل ارشاد کے جزو نہیں بلکہ حضرت حذیفہ کے اپنے الفاظ ہیں ، نیز ان الفاظ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ دبیلہ سے طاعون کا ورم ہی مراد ہے ۔ حضرت حذیفہ سے ایک روایت میں یہ منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان منافقوں کے بارے میں مجھے پوری طرح بتا دیا تھا کہ وہ کون کون سے لوگ ہیں اور کسی طرح مریں گے ) چنا چہ وہ سب اسی طرح مرے جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بتایا تھا ۔

یہ حدیث شیئر کریں