بحیرا راہب کا واقعہ
راوی:
عن أبي موسى قال : خرج أبو طالب إلى الشام وخرج معه النبي صلى الله عليه و سلم في أشياخ من قريش فلما أشرفوا على الراهب هبطوا فحلوا رحالهم فخرج إليهم الراهب وكانوا قبل ذلك يمرون به فلا يخرج إليهم قال فهم يحلون رحالهم فجعل يتخللهم الراهب حتى جاء فأخذ بيد رسول الله صلى الله عليه و سلم قال هذا سيد العالمين هذا رسول رب العالمين يبعثه الله رحمة للعالمين فقال له أشياخ من قريش ما علمك فقال إنكم حين أشرفتم من العقبة لم يبق شجر ولا حجر إلا خر ساجدا ولا يسجدان إلا لنبي وإني أعرفه بخاتم النبوة أسفل من غضروف كتفه مثل التفاحة ثم رجع فصنع لهم طعاما فلما أتاهم به وكان هو في رعية الإبل فقال أرسلوا إليه فأقبل وعليه غمامة تظله فلما دنا من القوم وجدهم قد سبقوه إلى فيء الشجرة فلما جلس مال فيء الشجرة عليه فقال انظروا إلى فيء الشجرة مال عليه فقال أنشدكم بالله أيكم وليه قالوا أبو طالب فلم يزل يناشده حتى رده أبو طالب وبعث معه أبو بكر بلالا وزوده الراهب من الكعك والزيت . ( علق الشيخ أن ذكر بلال في الحديث خطأ إذ لم يكن خلق بعد )
" اور حضرت ابوموسی بیان کرتے ہیں ( کہ ایک مرتبہ ) ابوطالب نے ( تجارت کی غرض ) شام کا سفر کیا تو ان کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی گئے ( جو اس وقت بارہ سال کی عمر کے تھے ، یہ تجارتی قافلہ ( ملک شام کے ایک مقام بصری میں ) ایک راہب یعنی عیسائی پادری ( بحیرا نام ) کے ہاں مقیم ہوا ) اور سب نے اپنے کجاوے کھول لئے " راہب ان لوگوں سے ملاقات کے لئے خود چلا آیا ، حالانکہ اس سے پہلے جب بھی یہ لوگ ادھر سے گزرے اور اس راہب کے ہاں قیام کیا تو اس نے کبھی باہر آکر ان سے ملاقات نہیں کی تھی ۔ راوی کہتے ہیں کہ یہ لوگ اپنے کجاوے کھول رہے تھے اور راہب ان کے درمیان کسی کو ڈہونڈتا پھر رہا تھا ، یہاں تک کہ اس نے آکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ لیا ، اور بولا یہی ہے ، تمام جہانوں کا سردار ، یہی ہے تمام جہانوں کے پروردگار کا رسول ( جو انسانیت عامہ کی ہدایت کے لئے آیا ہے ) یہی وہ شخص ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے تمام جہان ولاوں کے لئے رحمت ورافت کا ذریعہ بنا کر بھیجا ہے ۔ قریش کے شیوخ نے راہب کو یہ کہتے سنا تو ) کسی شیخ نے اس سے پوچھا کہ : تم اس ( نوعمر ) کے بارے میں ( یہ سب باتیں ) کہاں سے جانتے ہو ؟ راہب نے جواب دیا : جب تم دو پہاڑوں کے درمیان والے راستہ سے نکل کر سامنے آئے تو ( میں یہاں سے دیکھ رہا تھا کہ ، کوئی درخت اور کوئی پتھر ایسا نہ تھا جو سجدہ میں نہ گرا ہو اور درخت وپتھر بڑے پیغمبر کے علاوہ اور کسی کو سجدہ نہیں کرتے ، نیز میں نے ایک اس شخص کو اس مہر نبوت کے ذریعہ بھی پہچانا ہے جو اس کے شانہ کی ہڈی کے نیچے سیب کے مانند واقعہ ہے ۔ پھر وہ راہب اپنے گھر میں گیا اور قافلہ والوں کے لئے کھانا تیار کیا اور جب وہ کھانا لے کر ان کے پاس آیا تو ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اونٹ چرانے گئے ہوئے تھے ، راہب نے قافلہ والوں سے کہا کہ اس شخص کو بلوا لو ( کیونکہ میرا مہمان خصوصی اصل میں وہی شخص ہے اور اسی کے اعزاز میں میں نے کھانا تیار کرایا ہے ) چنانچہ ( بلابھیجنے پر یا از خود ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم آرہے تھے ابر کا ایک ٹکڑا آپ پر سایہ کئے ہوئے تھا ، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ ایسی جگہوں پر کہ جہاں درخت کا سایہ تھا وہ لوگ پہلے ہی قبضہ کر کے پیٹھ گئے تھے تو فورا درخت کی شاخوں نے ایک ٹکڑا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سایہ کر لیا ( یہ ماجرا دیکھ کر ) راہب نے قافلہ والوں سے کہا کہ درخت کے سایہ کو دیکھوں جو اس شخص پر جھک آیا ہے ۔ پھر اس نے کہا ، میں تم لوگوں کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں ) یہ بتاؤ کہ تم میں سے کون شخص اس ( نوعمر ) کا سر پرست ہے ؟ لوگوں نے کہا : ابوطالب ہیں ۔ ( یہ سن کر ) راہب بڑی دیر تک ابوطالب کو اس بات کے لئے سمجھاتا رہا اور قسم دیتا رہا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ واپس بھیج دیں بالآخر ابوطالب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ واپس بھیج دیا ، ینز ابوبکر نے بلال کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ کر دیا اور راہب نے کنک اور روغن زیت کا توشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا ۔ " ( ترمذی )
تشریح :
نیز میں نے اس شخص کو اس مہر نبوت کے ذریعہ بھی پہچانا ہے ۔۔ الخ۔ " بعض روایتوں میں یہ بھی آیا ہے کہ راہب اہل قافلہ کو یہ جواب دینے کے بعد کھڑا ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گلے لگایا اور پھر اہل قافلہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی زندگی کے بارے میں بہت سے سوال کئے کہ ان کے شب وروز کس طرح گزرتے ہیں ، ان کے رہنے سہنے ، اٹھنے بیٹھنے ، لیٹنے ، سونے اور کھانے پینے کا کیا انداز ہے اور لوگوں کے ساتھ ان کے اخلاق ومعاملات کیسے ہیں وغیرہ وغیرہ اہل قافلہ نے جو جواب دیئے ان کو اس نے اپنی کتابوں میں پڑھی ہوئی باتوں اور اپنی معلومات کے بالکل مطابق پایا ۔
درخت کی شاخوں نے جھک کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سایہ کر لیا " کے تحت شارحین نے لکھا ہے کہ اگرچہ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر ابر کے اس ٹکڑے کا سایہ موجود تھا جو راستہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سایہ فگن چلا آرہا تھا لیکن اس کے باوجود درخت نے جھک کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو سایہ کیا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امتیازی حیثیت اجاگر کرنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعزاز کو ظاہر کرنے کے لئے تھا ، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس وقت ابر کا سایہ ہٹ گیا تھا ، اس لئے درخت نے جھک کر سایہ کر لیا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزہ کا اظہار تھا ۔ بہر حال سر مبارک پر بادل کا سایہ فگن ہونا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں سے ہے ، لیکن علماء نے لکھا ہے کہ یہ صورت ہمیشہ نہیں رہتی تھی بلکہ کبھی ضرورت واحتیاج کے وقت یہ معجزہ ظاہر ہوتا تھا ۔
" درخت کے سایہ کو دیکھو جو اس پر جھک آیا ہے " سے راہب کا مطلب یہ تھا کہ اگر تم ( بادل کی صورت میں ) آسمان کے سایہ کو نہیں دیکھ یکتے تو زمین کے اس سایہ ہی کو دیکھ لو جو درخت کی شاخوں کی صورت میں اس ہستی پر جھکا ہوا ہے ۔ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ راہب کی مراد اہل قافلہ کو سر کی آنکھوں سے نہیں دل کی آنکھوں سے دیکھنے کی طرف متوجہ کرنا تھا کیونکہ سر کی آنکھوں سے توہ لوگ خود ہی دیکھ رہے تھے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے اپنی فطرت سلیم مسخ کر کے جہل وانکار کی تاریکی میں بھٹکنا ہی اپنا مقدر بنا لیا تھا ان کی دل کی آنکھیں تو تعصب اور ہٹ دھرمی سے ایسی بند ہوئیں کہ انہوں نے پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی آسمانی صداقت کی اس بڑی سے بڑی علامتیں کھلی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود نورہدایت کی کوئی کرن حاصل نہیں کی ، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ورسالت کی سب نشانیاں ( سر کی آنکھوں سے ) دیکھتے تھے لیکن دل کی آنکھوں کا ) ایسا دیکھنا ان کو نصیب نہیں ہوتا تھا جو ان کے کام آتا اور ان کو راہ راست پر لگا دیتا جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا :
وترہم ینظرون الیک وہم لا یبصرون
" اور ان کافروں ) کو آپ دیکھتے ہیں کہ گویا آپ کو دیکھ رہے ہیں حالانکہ وہ کچھ بھی نہیں دیکھتے ۔ "
" بالآخر ابوطالب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ واپس بھیج دای " بات دراصل یہ تھی کہ بصری رومی سلطنت کے زیر نگین تھا جہاں عیسائی شہنشاہیت کا پر چم لہرا رہا تھال ، اور وہاں بڑے بڑے عیسائی پادریوں نے اپنے علم وقیافہ کی بنیاد پر نبی آخر الزمان کی بعثت کی خبر دی تھی ، جس سے ایک طرح کی سراسیمگی اس عیسائی شہنشاہیت پر طاری ہوگئی تھی اور اس بات کا وسیع پیمان پر انتظام کیا گیا تھا کہ جس طرح بھی ممکن ہو اس نئے نبی کو اپنے اثرات پھیلانے سے پہلے ہی دنیا سے ختم کر دیا جائے ! راہب بحیرا چونکہ آسمانی کتابوں کا سچا عالم تھا اور نبی آخر الزمان کے تئیں عقیدت رکھتا تھا اس لئے اس نے آنحضرت کو پہچان کر حضرت ابوطالب پر زور ڈالا کہ آپ کو مکہ واپس کر دیں ، اس کو خوف تھا کہ اگر رومی سلطنت کے گماشتوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بھنک ملی گئی تو وہ فوارا گرفتار کر کے اپنے ساتھ لے جائیں گے اور قتل کر ڈالیں گے ، چنانچہ ترمذی اور حاکم نے یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ ادھر تو حضرات ابوطالب کے تجارتی قافلہ کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سفر شروع ہوا ادھر رومی سلطنت کے گماشتے جن کی تعداد سات تھی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ٹوہ میں لگ گئے کہ جہاں بھی ملیں قتل کر دیا جائے ، اس ٹوہ میں وہ بحیرا راہب تک بھی پہنچ گئے ، بحیرا نے ان کو دیکھ کر کہا کہ تم لوگ یہاں کیا کرنے آگئے ؟ انہوں نے کہا : ہمیں معلوم ہوا ہے کہ پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم اس مہینے ( اپنے ملک سے ) سفر پر روانہ ہونے والے ہیں ، لہٰذا ہر ہر راستہ پر آدمی لگا دئیے گئے ہیں کہ وہ جب بھی ہماری سلطنت کی حدود میں ) داخل ہوں ان کو فورا مار ڈالا جائے ۔ بحیرا نے کہا : مجھے یہ بتاؤ کہ اگر اللہ تعالیٰ نے کسی چیز کو مقدر کر دیا ہے تو کیا کوئی شخص اس کو بدل سکتا ہے ، ان گماشتوں نے جواب دیا نہیں ، تب بحیرا نے کہا ( میں تمہیں سچی بات بتاتا ہوں کہ تم لوگ جس شخص کی تلاش میں ہو وہ یقینا اللہ کا سب سے بڑا پیغمبر بننے والا ہے ، دنیا کی کوئی طاقت اس کو نقصان نہیں پہنچا سکتی لہٰذا تم اپنے اس خیال خام سے باز آجاؤ کہ اس کو قتل کر دوگے اور بہتر یہی ہے کہ ) تم اس کی اطاعت کو قبول کر کے اس کے ساتھ عقیدت ومحبت رکھو ۔
کنک اور روغن زیت کا توشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ کیا " کنک موٹی روٹی کو کہتے ہیں ، اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ کنک اس خاص قسم کی روٹی کو کہتے تھے جو آٹے ، دودھ اور شکر کو ملا کر بناتے تھے ، اس روٹی کے ساتھ روغن زیت اس لئے دیا تھا کہ روٹی سے لگا کر کھانے کے کام آئے ۔ جزری نے اس حدیث کے بارے میں لکھا ہے کہ ویسے تو اس کی اسناد صحیح ہے اور اس کے رجال بخاری اور صحیح مسلم یا ان دونوں میں سے کسی ایک کے سلسلے سے تعلق رکھتے ہیں ، تاہم اس حدیث میں حضرت ابوبکر اور حضرت بلال کو جو ذکر ہے ، وہ غیر محفوظ ہے ( یعنی اصل روایت کا جزو نہیں ہے ) کسی راوی کے سہو سے یہ جز و نقل ہوگیا ہے ) کیونکہ اس وقت خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر بارہ سال کی اور حضرت ابوبکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دو یا ڈھائی سال چھوٹے تھے اور حضرت بلال تو شاید ان دنوں میں پیدا بھی نہ ہوئے ہوں گے ۔ پس یہ کہنا کہ ابوبکر اور بلال کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ کر دیا تھا کوئی معنی نہیں رکھتا ، اسی لئے ذہبی نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے گو بعض حضرات نے ذہبی کہ اس قول کو مسترد کیا ہے ۔ حافظ ابن حجر نے اس حدیث کے بارے میں لکھا ہے کہ اس کے راوی ثقات ہیں ، اور اس میں کوئی منکر نہیں ہے علاوہ اس جزء کے ( جس میں یہ مذکور ہے کہ ابوبکر نے بلال کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ کر دیا تھا ۔ بہر حال یہ بات تو ثابت ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے ، ہاں اس کے مذکور جزء کے بارے میں یہ ضرور کہا جاسکتا ہے یہ اصل روایت کا جزء نہیں ہے بلک کسی روای کے سہو سے نقل ہوگیا ہے ۔ :