مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ معجزوں کا بیان ۔ حدیث 510

اونٹ کی شکایت ، درخت کے سلام اور ایک کے اثرات بد سے نجات کا معجزہ

راوی:

وعن يعلى بن مرة الثقفي قال ثلاثة أشياء رأيتها من رسول الله صلى الله عليه و سلم بينا نحن نسير معه إذ مررنا ببعير يسنى عليه فلما رآه البعير جرجر فوضع جرانه فوقف عليه النبي صلى الله عليه و سلم فقال أين صاحب هذا البعير فجاءه فقال بعنيه فقال بل نهبه لك يا رسول الله وإنه لأهل بيت ما لهم معيشة غيره قال أما إذ ذكرت هذا من أمره فإنه شكا كثرة العمل وقلة العلف فأحسنوا إليه قال ثم سرنا فنزلنا منزلا فنام النبي صلى الله عليه و سلم فجاءت شجرة تشق الأرض حتى غشيته ثم رجعت إلى مكانها فلما استيقظ رسول الله صلى الله عليه و سلم ذكرت له فقال هي شجرة استأذنت ربها عز و جل أن تسلم على رسول الله صلى الله عليه و سلم فأذن لها قال ثم سرنا فمررنا بماء فأتته امرأة بابن لها به جنة فأخذ النبي صلى الله عليه و سلم بمنخره فقال اخرج إني محمد رسول الله قال ثم سرنا فلما رجعنا من سفرنا مررنا بذلك الماء فسألها عن الصبي فقالت والذي بعثك بالحق ما رأينا منه ريبا بعدك . رواه في شرح السنة

" اور یعلی ابن مرہ ثقفی کہتے ہیں کہ میں نے ( ایک ہی سفر میں ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( کے معجزات میں) سے تین چیزیں دیکھیں، وہ اس طرح کے ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جا رہے تھے کہ ناگہاں آب کش ( پانی کھینچنے والے ) اونٹ کے پاس سے گزرے اس اونٹ نے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو بڑ بڑ کر کے اپنی گردن ( زمین پر رکھ دی ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس ٹھہر گئے اور پوچھا کہ اس اونٹ کا مالک کہاں ہے ؟ مالک حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا یہ اونٹ میرے ہاتھ بیچ دو ! اس نے عرض کیا یار سول اللہ ! میں اس اونٹ کو بیچ تو نہیں سکتا ہاں ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے الفاظ کے احترام میں ) اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ( بلا قیمت نذر کرتا ہوں، ویسے ( یہ عرض کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں دیکھتا کہ ) یہ اونٹ ایسے گھر والوں کا ہے ( یعنی میرا اور میرے اہل وعیال کا ) کہ جن کا ذریعہ معاش اس اونٹ کے علاوہ کچھ نہیں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر ، فرمایا جب کہ تم نے اونٹ کے بارے میں حقیقت حال بیان کر دی ہے تو ( میں بھی تمہیں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ میں اپنی ضرورت کے لئے اس اونٹ کو خریدنا نہیں چاہتا تھا ، بلکہ اصل مقصد اس اونٹ کو تنگی اور مصیبت سے نجات دلانا تھا کیونکہ ) اس اونٹ نے درحقیقت مجھ سے شکوہ کیا ہے کہ اس سے کام زیادہ لیا جاتا ہے اور کھانے کو کم دیا جاتا ہے ، پس اگر تم اس اونٹ کو بیچ کر اپنے سے جدا نہیں کرسکتے تو یہ تو کرسکتے ہو کہ اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو ( یعنی اس کو گھاس دانہ خوب دو اور کام کم لو اگرچہ زیادہ کھلا کر زیادہ کام لینا جائز ہے یا اگر چارہ زیادہ دینے کی استطاعت نہیں ہے تو کام بھی کم لینا چاہئے لیکن یہ ظلم کی بات ہے کہ کھلاؤ کم اور کام زیادہ لو) اس کے بعد حضرت یعلی نے دوسرا معجزہ بیان کیا کہ) پھر ہم آگے روانہ ہوئے یہاں تک کہ ایک جگہ اتر کر آرام کرنے لگے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سوگئے اس وقت ( میں نے دیکھا کہ ) ایک درخت زمین کو چیرتا ہوا آیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈھانک لیا (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھک گیا) اور پھر وہ اپنی جگہ پر واپس چلا گیا جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس درخت کے آنے اور جانے کا ذکر کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (پورا واقعہ سن کر ) فرمایا یہ وہ درخت ہے جس نے اپنے پروردگار سے اس بارے میں اجازت مانگی تھی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اجازت دیدی (اور وہ مجھے سلام کرنے آیا تھا) حضرت یعلی تیسرا معجزہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم پھر آگے بڑھے اور ایک پانی کی جگہ (یعنی ایسی آبادی میں ) پہنچے (جہاں پانی دستیاب تھا) وہاں ایک عورت اپنے لڑکے کو لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اس لڑکے پر دیوانگی طاری تھی (یعنی کسی جن یا شیطان کے اثرات بد میں گرفتار تھا) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکے کی ناک پکڑ کر (اس جن یا شیطان سے) کہا کہ نکل جاؤ، میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کا رسول ہوں اس کے بعد ہم نے آگے کا سفر پورا کیا اور جب واپسی میں اس پانی والی آبادی کے پاس سے گزرے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت سے اس لڑکے کا حال دریافت کیا عورت نے کہا اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم (کے جانے ) کے بعد ( یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے بعد) اس لڑکے میں تشویش کی کوئی بات نہیں دیکھی (یعنی وہ بالکل اچھا ہوگیا ہے) اور سارے اثرات بد زائل ہوگئے ہیں ) اس روایت کو بغوی نے شرح السنہ میں نقل کیا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں