شب ہجرت کا واقعہ اور غار ثور کے محفوظ ہونے کا معجزہ
راوی:
وعن ابن عباس قال تشاورت قريش ليلة بمكة فقال بعضهم إذا أصبح فأثبتوه بالوثاق يريدون النبي صلى الله عليه و سلم وقال بعضهم بل اقتلوه وقال بعضهم بل أخرجوه فأطلع الله عز و جل نبيه صلى الله عليه و سلم على ذلك فبات علي على فراش النبي صلى الله عليه و سلم تلك الليلة وخرج النبي صلى الله عليه و سلم حتى لحق بالغار وبات المشركون يحرسون عليا يحسبونه النبي صلى الله عليه و سلم فلما أصبحوا ثاروا إليه فلما رأوا عليا رد الله مكرهم فقالوا أين صاحبك هذا قال لا أدري فاقتصوا أثره فلما بلغوا الجبل اختلط عليهم فصعدوا في الجبل فمروا بالغار فرأوا على بابه نسج العنكبوت فقالوا لو دخل هاهنا لم يكن نسج العنكبوت على بابه فمكث فيه ثلاث ليال . رواه أحمد
حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ قریش مکہ نے ایک روز رات کے وقت (دارالندوہ) میں اپنی مجلس مشاورت منعقد کی (جس میں ابلیس شیطان بھی ایک نجدی شیخ کی صورت میں شریک ہوا ) چنانچہ بعض نے یہ مشورہ دیا کہ صبح ہوتے ہی اس شخص کی مشکیں کس لو (یعنی رسیوں سے باندھ کر قید میں ڈال دو) " اس شخص " سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی تھی ، بعض نے یہ رائے دی کہ (نہیں بلکہ اس کو قتل کرڈالو اور بعض نے (حقارت کے ساتھ ) یہ کہا کہ اس کو اپنی سر زمین سے نکال کر باہر کرو یعنی جلاوطن کردو ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعہ ) اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو (قریش مکہ کے مشورہ وفیصلہ سے ) آگا کردیا (اور حکم دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آج کر رات اپنے بستر پر حضرت علی کو سلادیں اور (ابو بکر کو ساتھ لے کر ) مکہ سے نکلے اور غار ثور میں جا چھپے ، ادھر قریش مکہ نے یہ سمجھ کر پوری رات علی کی نگرانی میں رات گزاردی کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں (یعنی گھر کے اندر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر تو حضرت علی سوئے ہوئے تھے اور قریش مکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سویا ہوا سجھ کر پوری رات گھر کی نگرانی کرتے رہے ) یہاں تک کہ جب صبح ہوئی تو انہوں نے (یعنی قریش مکہ نے ) اس (بستر ) پر (کہ حضرت علی سوئے ہوئے تھے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا گمان کرکے ) دھاوا بول دیا لیکن جب انہوں نے (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بجائے ) حضرت علی کو دیکھا اور اللہ تعالیٰ نے ان کی بدخواہی کو انہی پر لٹا دیا تو (وہ بڑے سٹپٹائے اور ) حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھنے لگے کہ تمہارا یہ دوست (جس کا یہ بستر ہے یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کہاں گیا ؟ حضرت علی نے جواب دیا کہ مجھ کو نہیں معلوم ۔قریش مکہ (صورت حال کو سمجھ کر فوراحرکت میں آگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈھونڈھ کر پکڑ لانے کے لئے ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کے نشان پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تعاقب میں نکل پڑے ، یہاں تک کہ جبل ثور تک پہنچ گئے مگر وہاں قدموں کے نشان مشتبہ ہوگئے تھے (جس کی وجہ سے ان کو آگے رہنمائی نہیں مل سکی ) پھر وہ پہاڑ کے اوپر گئے اور ادھر ادھر ٹوہ لگاتے ہوئے ) غار کے منہ پر پہنچ گئے (ان کا گمان تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس غار میں چھپے ہوں گے ) لیکن انہوں نے غار کے اوپر گئے اور ادھر ادھر ٹوہ لگاتے ہوئے ) غار کے منہ پر پہنچ گئے (ان کا گمان تھا کہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس غار میں چھپے ہوں گے ) لیکن انہوں نے غار کے منہ پر مکڑی کا جالا دیکھا تو کہنے لگے کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس غار میں داخل ہوئے ہوتے تو اس کے منہ پر مکڑی کا جالا نہ ہوتا (اس طرح وہ لوگ وہاں سے مایوس ہو کر واپس ہوگئے ) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تین رات دن اسی غار میں چھپے رہے ۔ (احمد )
تشریح :
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے واقعہ کا پس منظر یہ ہے کہ جب مشرکین مکہ کو یہ معلوم ہوا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی دعوت اسلام مدینہ تک پہنچ گئی ہے اور وہاں کے متعدد لوگ حلقہ بگوش اسلام ہو گئے ہیں تو انہیں سخت تشویش ہوئی ، اس مسئلہ پر غور وفکر اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ کرنے کے لئے ان کے سارے بڑے بڑے سردار اور زعماء دارالندوہ میں جمع ہوئے ، عین اس وقت جب کہ ان سرداروں کی مش اور تی مجلس شروع ہونے والی تھی ابلیس ایک بوڑھے اور تجربہ کا رظاہر ہونے والے شخص کی صورت میں اس مش اور تی مجلس میں پہنچا اور بولا کہ میں نجد سے آیا ہوں ، جب مجھے تو لوگوں کے اس اجتماع کا علم ہوا تو میری خواہش ہوئی کہ میں بھی تمہارے اس اجتماع میں شریک ہو کر کوئی مناسب اور کار گر رائے پیش کروں بلاشبہ عقل ودانائی اور خیرخواہی میں تم میں سے کوئی شخص مجھ سے بڑھا ہوا نہیں ہے حاضرین مجلس ابلیس کی اس بات سے بہت متاثر ہوئے اور اس کو عزت واحترام کے ساتھ اپنے درمیان جگہ دی ۔ اس کے بعد اس مش اور تی کمیٹی کی کار وائی کا آغاز ہوا اور مختلف لوگوں کی طرف سے اظہار خیال وآراء کا سلسلہ شروع ہوگیا ، ابوالبختری نے کہا : میری رائے یہ ہم کہ اس شخص (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کو قید کرکے کسی ایسی تنگ وتاریک کوٹھڑی میں بند کردو جس میں آمدورفت کو کوئی ذریعہ اور کوئی دروازہ ودر کھلا نہ رہ جائے ، صرف ایک ایسا بڑا سوراخ باقی رکھا جائے ، جس میں سے اس کے کھانے پینے کی چیزیں ڈال دی جایا کریں ، اور اس کو اس کوٹھڑی میں اس وقت تک محبوس رکھنا چاہیے جب تک کہ وہ اس میں پڑاپڑا مر نہ جائے ۔ یہ سن کر اس شیخ نجدی (کی صورت میں ابلیس نے کہا یہ رائے نہایت غیرموزوں ہے کیونکہ جب تم اس کو قید کروگے تو اس کے خاندان کے لوگ اس کے عزیز و اقا رب تم پر دھاوا بول دیں گے اور جنگ وجدل کے ذریعہ تمہاری قید سے اس کو آزاد کرا کے لے جائیں گے ۔ پھر ہشام ابن عمرو نے یہ رائے دی کہ اس شخص کو اچھی طرح ذلیل ورسوا کر کے ایک اونٹ پر سوار کرا دو اور اپنی سر زمین سے باہر نکال دو ، وہ یہاں جلاوطن ہو کر جہاں کہیں جائے گا اور وہاں اپنے دین کی اشاعت میں جو کچھ کرے گا اس سے کم از کم تم لوگ تو محفوظ رہوگے ۔ ابلیس نے اس رائے کی بھی مخالفت کی اور کہا کہ اس طرح تو اس شخص کو کھیل کھیلنے کا خوب موقعہ مل جائے گا اور یہاں سے کہیں اور جا کر اپنی مظلومیت کے قصے سنائے گا اور لوگوں کی اپنی طرف متوجہ کرے گا ، اگرچہ یہاں کے لوگ اس کی دعوت سے محفوظ رہیں گے مگر وہ دوسری جگہ کے لوگوں کو اپنا ہمنوا اور ہمدرد بنا لے گا اور پھر ان لوگوں کی مدد سے طاقت پاکر تم پر حملہ آور ہوجائے گا آخر میں لعین ابوجہل بولا اور اس نے رائے دی کہ تم لوگ ہر قبیلہ وخاندان میں ایک ایک نوجوان منتخب کرلو اور ان سب کو تلواریں دے کر کہو کہ وہ سب ایک ساتھ اس شخص پر اپنی تلواروں سے حملہ کرکے اس کا کام تمام کردیں ، اس طرح اس کا خون تمام قبیلوں اور خاندانوں میں پھیل جائے گا یعنی اس کے قتل کا کوئی ایک قبیلہ وخاندان ذمہ دار ہونے کے بجائے اجتماعی جنگ کرنے اور اس شخص کے خون کا قصاص لینے سے عاجز ہوں گے ۔ اور مجبورًا دیت (خون بہا ) لینے پر راضی ہوجائیں گے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب وہ دیت طلب کریں گے تو ہم سب مل کر ان کو دیت دے دیں گے اور قصہ تمام ہوجائے گا ابلیس نے اس رائے کی بڑی تعریف کی اور کہا کہ اس جوان نے بالکل صحیح بات کہی پھر تو سب لوگ ہی ابوجہل کی رائے پر متفق ہوگئے اور یہی طے پایا کہ آج رات بھر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے گھر کا محاصرہ رکھا جائے اور صبح ہوتے ہی ان پر حملہ کرکے قصہ تمام کردیا جائے ، لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو بھیج کر قریش کی اس سازشی کاروائی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ کردیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بستر پر حضرت علی کو سلا کر ابوبکر کے ساتھ ہجرت کے ارادہ سے رات ہی میں مکہ سے نکل جائیں ، قرآن کریم کی اس آیت میں اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔
واذ یمکربک الذین کفروا لیثبتوک او یقتلوک او یخرجوک ۔
اور جب (مکہ کے ) کافر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں یہ سازش کر رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قید میں ڈال دیں یا آپ کو قتل کر دیں یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جلاوطن کرڈالیں۔"
چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بستر پر حضرت علی کو سلادیا اور خود حضرت ابوبکر کو لے کرراتوں رات مکہ سے نکل کر جبل ثور کے ایک غار میں جا چھپے اس وقت جب کہ قریش مکہ کی ایک خونخوار جماعت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کئے ہوئے تھی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر سے باہر نکلنا اور ان کافروں کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھر سے نکلتے ہوئے دیکھنا ، پھر ان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گفتگو کرنا اور ان کی نظروں کے سامنے سے گزرتے ہوئے صاف بچ کر نکل جانا ایک حیرت انگیز قصہ اور زبردست معجزہ تھا جس تفصیل تاریخ سیر کتابوں میں مذکور ہے ۔ بحرحال قریش مکہ اپنے اس گمان کے مطابق کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم گھر کے اندر نہیں سوئے ہوئے تھے رات بھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کی نگرانی کرتے رہے ان کا منصوبہ تھا کہ پوری رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگرانی رکھنے کے بعد صبح سویرے گھر میں گھس پڑیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کام تمام کردیں گے حالانکہ گھر کے اندر تو حضرت علی سوئے ہوئے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کی نظروں کے سامنے سے باہر نکل گئے تھے ، چنانچہ صبح ہوتے ہی جب انہوں نے گھر کے اندر دھاوا بول دیا تو وہاں حضرت علی کو دیکھ کر سخت حیران ہوئے اور فورا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کے نشان دیکھ دیکھ کر جبل ثور تک پہنچ گئے اور پھر اس غار کے منہ پر بھی جاپہنچے ، جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر کے ساتھ چھپے ہوئے تھے ، اس جگہ پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ظاہر ہوا جس غار کے اندر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر چھپے ہوئے تھے اس کا منہ صرف ایک بالشت چوڑا اور ایک ہاتھ لمبا ہے ، اللہ تعالیٰ نے اسی وقت دو کبوتر بھیج دئے جنہوں نے غار کے منہ کے نیچے کی جانب انڈے دئیے اور قدرت الہٰی کے حکم سے ایک مکڑی نے آکر جبھی غار کے منہ پر جلا تن دیا ، ایسی صورت میں قریش مکہ کے ان گماشتوں کو ، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تعاقب میں غار تک پہنچ گئے تھے ، یہ خیال بھی نہیں ہوسکتا تھا کہ اس غار کے اندر دو انسان چھپے ہوئے ہیں ، لہٰذا وہ اس جگہ سے مایوس ہو کر لوٹ گئے ۔ ایک روایت میں تو یہ بھی آیا ہے کہ قریش مکہ کے وہ گماشتے غار کے منہ کے قریب ایسی جگہ پہنچ گئے تھے کہ اگر ان کی نظر اپنے پیروں کی طرف چلی جاتی تو بڑی آسانی سے وہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر کو غار کے اندر دیکھ لیتے ، حضرت ابوبکر غار کے اندر سے ان لوگوں کو اپنے سر پر کھڑا دیکھ ہی رہے تھے انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تئیں سخت تشویش ہوئی ، چنانچہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے خوف کا اظہار کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان دو آدمیوں کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جن کا تیسراساتھی اللہ تعالیٰ ہے (یعنی ہم دونوں یہاں بے یارومددگار نہیں ہیں بلکہ ایک تیسری ذات یعنی اللہ تعالیٰ بھی ہمارے ساتھ ہے جو یقینا ہم دونوں کی حفاظت کرے گا چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کافروں کو اس طرح بے بصر کردیا کہ وہ غار کے چاروں طرف گھوم گھوم کر دیکھتے تھے لیکن غار کے اندر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر کو دیکھ نہیں پائے ۔
تفسیر بحرالعلوم میں اس آیت ( اِذْ يَقُوْلُ لِصَاحِبِه لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا) 9۔ التوبہ : 40) ۔ کے تحت لکھا ہے کہ اس آیت میں صاحب (ساتھی ) سے مراد حضرت ابوبکر صدیق ہیں ، جو ہجرت کی رات میں اس موقع پر جب کہ کفار مکہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا پختہ ارادہ کرلیا تھا ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ سے نکلے تھے اور دونوں غار ثور میں جا کر چھپ گئے تھے اس غار میں ابوبکر نے جب دیکھا کہ کفارمکہ غار کے منہ تک آپہنچے ہیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اگر ان کفار میں کسی نے بھی اپنے پیروں کی طرف سے دیکھا تو اس کی نظر یقینا ہم تک پہنچ جائے گئی ، اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ (فکر وتشویش کی کوئی بات نہیں ہے ) اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ابوبکر ان دو آدمیوں کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جن کا تیسرا ساتھی اللہ تعالیٰ ہے ۔ اور یہیں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر کی صحابیت کا منکر ، نص قرآن کے انکار کے سبب " کافر" ہے جب کہ دوسرے صحابہ کی صحابیت کا منکر کافر بلکہ مبتدع ہے۔
واقعہ ہجرت کے سلسلہ میں جو روایت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا منقول ہے اس میں انہوں نے یوں بیان کیا ہے کہ : میرے والدین اپنے زمانہ عقل وبلوغ کی ابتداء ہی سے دیندار تھے ، اور کوئی دن ایسا نہیں گزرا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں صبح وشام نہ آتے ہوں ، جب مسلمانوں پر کفار مکہ کا ظلم وستم اپنے عروج کو پہنچ گیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک دن ) میرے والد حضرت ابوبکر سے فرمایا کہ تمہارا دارالہجرت مجھے دکھایا گیا ہے ، وہ دو سنگتانوں کے درمیان کھجوروں کے باغات والی ایک بستی ہے اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے مسلمانوں کا مدینہ کو ہجرت کا سلسلہ شروع ہوگیا اور حبشہ کی طرف ہجرت کر جانے والے مسلمان بھی مدینہ آگئے اسی بناء حضرت ابوبکر نے بھی مدینہ کو ہجرت کی تیاری شروع کی لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوبکر ! ابھی توقف کرو ، میں امید رکھتا ہوں کہ مجھے بھی ہجرت کی اجازت ملنے والی ہے اس دن سے حضرت ابوبکر کا یہ حال ہوگیا کہ وہ ہروقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہتے کسی موقع پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا نہیں ہوتے تھے ، علاوہ ازیں انہوں نے پہلے ہی سے دو اونٹ مہیا کرلئے تھے جو کسی بھی وقت روانگی کی تیاری کے ساتھ چار مہینے تک گھر میں بندھے کھڑے رہے تاآنکہ ایک دن ٹھیک دوپہر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر کے گھر تشریف لائے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھ کوہجرت کی اجازت مل گئی ہے ، حضرت ابوبکر نے ایک اونٹ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا ، عائشہ اور اسماء نے زاد راہ تیار کیا ، اور پھر اسی دن جو ربیع الاول ١٤نبوی کی تاریخ تھی اور پنجشنبہ کا دن تھا ، رات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم (اپنے مکان سے نکل کر ) حضرت ابوبکر کے گھر آئے اور وہاں سے یہ دونوں روانہ ہو کر جبل ثور کے ایک غار میں جا چھپے اللہ تعالیٰ کی قدرت سے اسی رات میں اس غار کے منہ پر کیکر کا درخت اگ آیا ، جنگلی کبوتر نے غار کے منہ پر گھونسلہ بنا کر انڈے دئیے اور مکڑی نے جالا تن دیا ، کفار مکہ جب اس غار کے قریب پنچے تو اس کے حصہ پر ایسی عامتیں دیکھ کر جو غار کے اندر کسی شخص کی موجودگی کی نفی کرتی تھیں محروم ومایوس واپس لوٹ گئے ۔
نیز جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رات کی تاریکی میں مکہ سے روانہ ہوئے تو پورے راستہ حضرت ابوبکر کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے چلتے تھے ، اور کبھی پیچھے ہوجاتے تھے اور اس کا مقصد اس بات کی نگرانی رکھنا تھا کہ کوئی کافر آگے سے یا پیچھے سے آکر اچانک دھاوا نہ بول دے ، پھر جب غار کے قریب پہنچے تو انہوں نے انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو باہر کھڑا کیا اور پہلے خود غار کے اندر جا کر اس کو صاف کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو غار کے اندر لے گئے ، یہ دونوں تین راتیں اسی غار میں چھپے رہے انہیں نے اپنے دونوں اونٹ بن الدئل کے ایک شخص کے حوالہ کرکے اس کو اس بات پر تیار کرلیا تھا کہ وہ تین راتیں گزرنے پر ان اونٹوں کو لے کر غار کے قریب موجود رہے ، نیز اس کو معقول معاوضہ دیا گیا اور اس کام کے لئے بھی آمادہ کر لیا تھا کہ وہ مدینہ تک رہبری کے فرائض انجام دے ، غار ثور میں قیام کے دوران تینوں راتوں حضرت عبداللہ بن ابوبکر کفارمکہ کے تمام حالات اور دن بھر کی تمام کار روائیوں سے رات کے وقت آکر مطلع کرتے رہے پھر تین راتوں کے بعد یہ دونوں حضرات اپنے اپنے اونٹ پر سوار ہوئے اور اس رہبر کو ساتھ لے کر عام راستہ کے بجائے ساحل سمندر کے ساتھ والے راستہ کے ذریعہ مدینہ کو روانہ ہوئے ، جب بنی مدلج کے علاقوں میں پہنچے تو پیچھے سے سراقہ ابن مالک آپہنچا جو قریش مکہ کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر یا ان دونوں کو زندہ یا مردہ پکڑ کر لانے کے عوض بھاری انعام کے لالچ میں ان کا تعاقب کررہا تھا ، جب وہ دونوں کے قریب پہنچا تو اچانک اس کے گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور وہ زمین پر گر پڑا ، اور پھر اٹھ کر گھوڑے پر سوار ہوا اور اتنا قریب پہنچ گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو اس کو سنائی دینے لگی اور عین اس وقت کہ وہ دھاوا بولنا چاہتا تھا اس کے گھوڑے کے دونوں پاؤں زانوں تک زمین میں دھنس گئے اور سراقہ الٹے منہ زمین پر گر پڑا اب اس کو تنبہ ہوا اور وہ گڑ گڑا کر امان کی دہائی دینے لگا ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر اس کی آواز سن کر کھڑے ہوگئے سراقہ نے ان دونوں کی خدمت میں کچھ زادہ راہ پیش کرنا چاہا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول نہیں فرمایا البتہ اس کو معاف کرتے ہوئے یہ حکم دیا کہ ہمارے بارے میں کسی کو نہ بتانا چنانچہ سراقہ وہاں سے لوٹا اور راستہ میں جو بھی کافر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تعاقب میں آتا ہوا ملتا اس کو تدبیروں سے واپس کردیتا تھا اس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر بحفاظت تمام مدینہ پہنچ گئے ۔