وفات سے پہلے ہی نبی کو جنت میں اس کا مستقر دکھا دیا جاتا ہے
راوی:
عن عائشة قالت : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول وهو صحيح : " لن يقبض نبي قط حتى يرى مقعده من الجنة ثم يخير " . قالت عائشة : فلما نزل به ورأسه على فخذي غشي عليه ثم أفاق فأشخص بصره إلى السقف ثم قال : " اللهم الرفيق الأعلى " . قلت : إذن لا يختارنا . قالت : وعرفت أنه الحديث الذي كان يحدثنا به وهو صحيح في قوله : " إنه لن يقبض نبي قط حتى يرى مقعده من الجنة ثم يخير " قالت عائشة : فكان آخر كلمة تكلم بها النبي صلى الله عليه و سلم : " اللهم الرفيق الأعلى " . متفق عليه
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم (مرض الموت میں مبتلا ہونے سے قبل ) اپنی تندرستی کے زمانہ میں فرمایا کرتے تھے کہ کسی نبی کی روح اس وقت قبض نہیں کی جاتی جب تک کہ جنت اس کا مستقر (یعنی وہ منازل عالیہ جو اس کے لئے جنت میں مخصوص ہیں ) اس کو دیکھا کر اس کو اختیار نہیں دے دیا جاتا (کہ چاہے ابھی اور دنیا میں رہو اور چاہے یہاں ہماری بارگاہ میں آجاؤ اس کے بعد حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بیان کیا کہ پھر جب (مرض وفات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کا وقت قریب آیا تو اس وقت جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک میری ران پر تھا اور (شدت مرض سے ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم بار بار بے ہوش ہو رہے تھے ، (ایک بار ) جوہوش آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھت (یعنی آسمان ) کی طرف نگاہ اٹھائی اور کہا : الہٰی !میں نے رفیق اعلی کو پسند کرتا ہوں (مجھے رفیق اعلی میں شامل فرما ) میں نے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ سنتے ہی ) کہا : اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں (یعنی دنیا کی زندگی کو ) ناپسند کردیا ہے (اور عالم آخرت کی زندگی کو اختیار کرلیا ہے ) کیونکہ مجھے وہ ارشاد گرامی یاد آگیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تندرستی کے زمانہ میں فرمایا تھا کہ کسی نبی کی روح اس وقت تک قبض نہیں کی جاتی جب تک کہ جنت کا اس کا مستقر اس کو دکھا کر اسکواختیار نہیں دیا جاتا (پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آسمان کی طرف نگاہ اٹھانا گویا جنت میں اپنا مستقر دیکھنا تھا) اور اللہم رفیق الاعلی کے الفاظ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فیصلہ کا اعلان ہے کہ ملے ہوئے اختیار کے تحت میں نے دنیا کی زندگی کو چھوڑ کر عالم آخرت کو پسند کرلیا ہے ) حضرت عائشہ نے بیان کیا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے جو آخری الفاظ نکلے وہ یہی اللہم رفیق الاعلی کے الفاظ تھے ۔" (بخاری ومسلم )
تشریح :
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک والے آخری الفاظ الہم الرفیق الاعلی تھے اور جیسا کہ سہیلی نے لکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سب سے پہلے جو الفاظ نکلے تھے وہ تھے اللہ اکبر، اور یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے زمانہ شیر خوارگی میں دایہ حلیمہ کے پاس تھے ۔ اور ایک روایت میں یہ آیا ہے کہ جب روز ازل حق تعالیٰ نے تمام ارواح عالم سے اپنی ربوبیت کا عہد لیا تھا جس کو عہد الست کہا جاتا ہے تو اس وقت حق تعالیٰ کے سوال الست بربکم (کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ کے جواب میں بلیٰ(جی ہاں یقینا آپ ہمارے رب ہیں ) سب سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روح پاک نے کہا تھا ۔