صحابہ کے فضائل
راوی:
وعن عبد الله بن مغفل قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " الله الله في أصحابي لا تتخذوهم غرضا من بعدي فمن أحبهم فبحبي أحبهم ومن أبغضهم فببغضي أبغضهم ومن آذاهم فقد آذاني ومن آذاني فقد آذى الله ومن آذى الله فيوشك أن يأخذه " . رواه الترمذي وقال : هذا حديث غريب
اور حضرت عبداللہ ابن مغفل کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( پوری امت کو خطاب کر کے) فرمایا : اللہ سے ڈرو، پھر اللہ سے ڈرو میرے صحابہ کے حق میں ، میرے بعد تم ان (صحابہ ) کو نشانہ ملامت نہ بنانا (یاد رکھو) جو شخص ان کو دوست رکھتا ہے ، تو میری وجہ سے ان کو دوست رکھتا ہے اور جو شخص ان سے دشمنی رکھتا ہے ، تو وہ مجھ سے دشمنی رکھنے کے سبب ان کو دشمن رکھتا ہے ۔ اور جس شخص نے ان کو اذیت پہنچائی اس نے گویا مجھ کو اذیت پہنچائی اور جس شخص نے مجھ کو اذیت پہنچائی اس نے گویا اللہ کو اذیت پہنچائی اور جس شخص نے اللہ کو اذیت پہنچائی تو وہ دن دور نہیں جب اللہ اس کو پکڑے گا ، اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے ۔"
تشریح :
اللہ سے ڈرو" یہ الفاظ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکیدومبالغہ کے لئے دوبار ارشاد فرمائے صحابہ کے حق میں اللہ سے ڈرنے کا مفہوم یہ ہے کہ ان کی عزت وتوقیر کی جائے ۔ ان کی عظمت وفضیلت کو ہر حالت میں ملحوظ رکھا جائے ، اور صحبت رسول کا جو بلند ترین مقام ان کو حاصل ہے اس کا حق ادا کیا جائے ۔
" نشانہ ملامت نہ بناؤ " کا مطلب یہ ہے کہ ان کی طرف بدگوئی کے تیر مت پھینکو ، ان کی عظمت کے منافی کوئی بات زبان سے نہ نکالو ، ان کی عیب جوئی اور نکتہ چینی سے پرہیز کرو۔
" میری وجہ سے ان کو دوست رکھتا ہے " کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ ان کو دوست رکھنے والا اس سبب سے دوست رکھتا ہم کہ میں ان کو دوست رکھتا ہوں ، یا یہ مطلب ہے کہ ان کو دوست رکھنے والا اس سبب سے دوست رکھتا ہے ۔ کہ میں ان کو دوست رکھتا ہوں یہ مطلب اگلے جملہ کے سیاق میں زیادہ موزوں ہے ، بہرحال اس ارشاد گرامی کا حاصل یہ ہے کہ میرے صحابہ کو دوست رکھنے والا مجھ کو دوست رکھنے والا ہے ، اور میرے صحابہ کو دشمن رکھنے والا مجھ کو دشمن رکھنے والا ہے ، اس سے معلوم ہوا کہ مالکیہ کا یہ مسلک حق ہے کہ جس شخص نے صحابہ کو برا کہا وہ دنیا میں واجب القتل قرار پاتا ہے ۔
علماء نے لکھا ہے کہ کسی ذات سے محبت کے صحیح وصادق ہونے کی علامت یہ ہے کہ وہ محبت محبوب کی ذات سے گزر کر اس کے متعلقین تک پہنچ جائے ، پس حق تعالیٰ سے محبت کی علامت یہ ہے کہ اس کے رسول سے بھی محبت ہو اور رسول سے محبت کی علامت یہ ہے کہ اس کے آل واصحاب سے بھی محبت ہو۔
" جب اللہ اس کو پکڑے گا " کا یہ مطلب ہے کہ جو شخص اپنے اس جذبہ وعمل کے ذریہ یہ ظاہر کرے گا کہ گویا وہ اللہ کی اذیت پہنچانے کے لئے پے درپے ہے تو وہ شخص اللہ کی پکڑ سے بچ نہیں سکے گا یعنی آخرت میں تو وہ عذاب اللہ وندی میں گرفتار ہوگا ہی اس دنیا میں بھی اس کو عذاب بھگتنا پڑ سکتا ہے ۔ اس اعتبار سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ حدیث شائد اس ارشاد اللہ وندی سے ماخوذ ہے :
ان الذین یؤ ذون اللہ ورسولہ لعنہم اللہ فی الدنیا والاخرۃ واعدلہم عذابا مہینا والذین یؤذون المؤمنین والمؤمنت بغیر ما اکتسبوا فقد الحتملوا بہتانا واثما مبینا ۔
بے شک جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کو ایذاء دیتے ہیں اللہ تعالیٰ ان پر دنیا وآخرت میں لعنت کرتا ہے اور ان کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے اور جو لوگ ایمان والے مردوں کو اور ایمان لانے والی عورتوں کو بدون اس کے کہ انہوں نے کچھ کیا ہو ایذاء پہنچاتے ہیں تو وہ لوگ بہتان اور صریح گناہ بار لیتے ہیں ۔"