مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ حضرت عمر کے مناقب وفضائل کا بیان ۔ حدیث 656

حضرت عمر کا وہ رعب ودبدبہ جس سے شیطان بھی خوف زدہ رہتا تھا

راوی:

وعن بريدة قال : خرج رسول الله صلى الله عليه و سلم في بعض مغازيه فلما انصرف جاءت جارية سوداء . فقالت : يا رسول الله إني كنت نذرت إن ردك الله سالما أن أضرب بين يديك بالدف وأتغنى . فقال لها رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إن كنت نذرت فاضربي وإلا فلا " فجعلت تضرب فدخل أبو بكر وهي تضرب ثم دخل علي وهي تضرب ثم دخل عثمان وهي تضرب ثم دخل عمر فألقت الدف تحت استها ثم قعدت عليها فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إن الشيطان ليخاف منك يا عمر إني كنت جالسا وهي تضرب فدخل أبو بكر وهي تضرب ثم دخل علي وهي تضرب ثم دخل عثمان وهي تضرب فلما دخلت أنت يا عمر ألقت الدف " . رواه الترمذي . وقال : هذا حديث حسن صحيح غريب

اور حضرت بریدہ اسلمیٰ کا بیان ہے کہ (ایک مرتبہ ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جہاد میں تشریف لے گئے تھے ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے تو ایک سیاہ فام چھوکری (جو یا تو سیاہ رنگت ہی رکھتی تھی یا حبشی النسل تھی ) خدمت اقدس میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (صلی اللہ علیہ وسلم ) میں نے منت مانی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو (اس سفر جہاد سے ) فتح وسلامتی کے ساتھ واپس لائے گا تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دف بجاؤں گی اور (فتح وسلامتی کی شادمانی کے گیت ) گاؤں گی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا ! اگر تم نے واقعی منت مان رکھی ہے تو دف بجالو ورنہ ایسا مت کرو " اس چھوکری نے (چونکہ واقعی منت مان رکھی تھی اس لئے ) دف بجانا شروع کردیا ۔ اتنے میں ابوبکر (مسجد نبوی میں ) داخل ہوئے لیکن وہ چھوکری دف بجانے میں مشغول رہی ۔ پھر علی آئے اور وہ اس وقت بھی دف بجاتی رہی ۔ پھر عثمان آئے تب بھی اس نے اپنا دف بجانا جاری رکھا اور پھر جب عمر آئے تو اس نے (ان کی ہیبت کے مارے جلدی سے ) دف کو اپنے کولہوں کے نیچے سرکا دیا اور کولہوں کے بل (اس طرح ) بیٹھ گئی (کہ دف نیچے چھپ کر رہ جائے اور عمر کی نظر اس پر نہ پڑے ) اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عمر ! تم سے شیطان بھی خوف زدہ رہتا ہے ۔ یہ چھوکری میری موجودگی میں دف بجا رہی تھی ، پھر ابوبکر آئے تو اس وقت بھی دف بجاتی رہی ، پھر علی آئے تو اس وقت بھی دف بجاتی رہی ۔ پھر عثمان آئے تو اس وقت بھی دف بجاتی رہی ، مگر اے عمر جب تم آئے تو اس چھوکری نے دف کو اٹھا کر چھپا دیا اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔"

تشریح :
" دف " کا لفظ زیادہ صحیح تو دال کے پیش کے ساتھ (دف ) ہے لیکن بعض روایتوں میں دال کے زبر کے ساتھ (دف ) بھی منقول ہوا ہے اور " دف " سے مراد وہ گول باجا ہے جو چھلنی کی وضع کا اور ایک طرف سے منڈھا ہوا ہو ، اور اس میں جھانج نہ ہو۔
" اگر تم نے واقعی منت مان رکھی ہے " یہ جملہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس نذر (منت ) کا پورا کرنا کہ جس میں اللہ کی رضا وخوشنودی حاصل ہوتی ہو واجب ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مراجعت پر اور خصوصا اس سفر جہاد سے باعافیت مراجعت پر کہ جس میں جانیں چلی جاتی ہیں ، مسرت وشادمانی کا اظہار کرنا یقینا ایسی چیز تھی جس سے اللہ کی رضا وخوشنودی حاصل ہوتی ہے ۔
" ورنہ ایسا مت کرنا " اس سے ثابت ہوا کہ ویسے تو دف بجانا جائز نہیں ہے لیکن اس طرح کے مواقع پر جائز ہے جن میں شارع علیہ السلام کی اجازت منقول ہوئی ہے جیسے مذکورہ نوعیت کی نذر پوری کرنا یا نکاح کا اعلان کرنا ۔ پس بعض علاقوں (جیسے یمن ) کے بعض مشائخ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ حالت ذکر میں دف بجاتے تھے تو اس کا کوئی اعتبار نہیں کیا جانا چاہئے ۔ ان کا وہ فعل حدیث کے بالکل معارض تھا واضح رہے کہ ملا علی قاری نے اس حدیث کے جملہ " اور گاؤں گی " کے تحت جو کچھ لکھا ہے کہ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ عورت کا ایسا گانا (یا ترانہ ) سننا کہ (جو نہ ساز کے ساتھ ہو نہ فحش اور غیر اخلاقی مضامین پر مشتمل ہو اور ) اس سے کسی چھوٹی یا بڑی برائی میں مبتلا ہونے کا خدشہ بھی نہ ہو جائز ہے ، اور اسی طرح بعض حضرات نے عرسوں اور عید وغیرہ (جیسی تقریبات اور خوشی ومسرت کے مواقع پر ) اس کو جائز ومختار کہا ہے ، لیکن یہ بات فقہ حنفی کی روایتوں کے خلاف ہے کیونکہ بحسب ظاہر روایت فقہاء مطلق راگ (گانا ) حرام ہے جیسے کہ درمختار اور بحرالرائق وغیرہ میں لکھا ہے بلکہ ہدایہ میں تو اس کو " گناہ کبیرہ " لکھا ہے اگرچہ وہ راگ محض اپنا دل خوش کرنے کے لئے ہو ۔ ان فقہاء کے نزدیک جواز کی حدیثیں منسوخ ہیں ۔
" تم سے تو شیطان بھی خوفزدہ رہتا ہے " میں شیطان سے یا مراد سیاہ فام چھوکری تھی ، جس نے ایک شیطانی کام کرکے " شیطان الانس " (انسانی شیطان ) کا مصداق بن گئی تھی ۔ یا وہ شیطان مراد ہے جو اس چھوکری پر مسلط تھا جس نے اس کو ایک غیر مناسب اور مکروہ فعل پر ابھارا تھا اور وہ " مکروہ فعل " دف بجانے اور گانے میں وہ حد سے زائد انہماک تھا جس نے اس کو تفریح طبع کے لئے " لہو" کی حد تک پہنچا دیا تھا ۔
ایک اشکال اور اس کا جواب :
یہ تو حدیث کی اجزائی وضاحت تھی اس سے قطع نظر اگر حدیث کے مجموعی سیاق وسباق میں دیکھا جائے تو ذہن میں ایک اشکال ابھر تا ہوا محسوس ہوتا ہے ۔ اس چھوکری نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دف بجانے کی اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی پھر اس نے دف بجانا شروع کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے ۔ نہ پسندیدگی کا اظہار کیا اور نہ ناگواری کا (گویا وہ صورت رہی جس کو اصطلاح حدیث میں " تقریر " کہا جاتا ہے ) اور یہی صورت اس وقت بھی رہی جب حضرت ابوبکر آئے پھر حضرت علی آئے اور پھر عثمان آئے لیکن جب حضرت عمر آئے اور اس چھوکری نے دف بجانا بند کر دیا تو آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو شیطان " سے تعبیر کیا ، آخر ایسا کیوں ؟ اسی خلجان کی راہ روکنے کے لئے علماء نے لکھا ہے : بات یہاں سے چلی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سفر جہاد کو نکلے تو اس چھوکری نے انتہائی عقیدت ومحبت کے تحت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فتح وسلامتی کی دعا مانگی ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فتح وسلامتی کے ساتھ واپس لائے تو اس چھوکری نے اس باعافیت مراجعت کو اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت سمجھا جو اس کے نزدیک یقینا شکرگزاری کا موجب بھی تھی اور اظہار خوشی ومسرت کی متقاضی بھی ۔ اسی بناء پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو نذر پوری کرنے کی اجازت دے دی ۔ پس اس کے ایک اچھی نیت اور اچھے جذبے پر مبنی ہونے کی وجہ سے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مخصوص اجازت کے تحت ، یہ دف بجانا " لہو" کے حکم سے نکل کر " حقانیت " کے حکم میں اور کراہیت کی صورت سے نکل کر استحباب کی صورت میں داخل ہوگیا لیکن ایسا ہونا اس پر منحصر تھا کہ یہ عمل (دف بجانا ) بہت محدود وقت اور اتنی کم سے کم حد تک رہتا جس سے ایفاء نذر کا مقصد پورا ہوجاتا ۔ مگر ہوا یہ کہ اس چھوکری نے دف بجانا شروع کیا تو اتنی منہمک ہوئی کہ اس حد سے گذر گئی اور اس کا یہ عمل کراہت کے دائرہ میں داخل ہوگیا لیکن اتفاق سے جس وقت وہ حد سے متجاوز ہوئی عین اسی وقت حضرت عمر آگئے ۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ الفاظ ارشاد فرمائے ۔ جن میں اس طرف اشارہ تھا کہ یہ کام بس اتنا ہی جائز ہے جتنے کی اجازت دی گئی ہے اس سے زیادہ ممنوع ہے اور بلاضرورت بجانا (یعنی محض تفریح اور شوق کی خاطر تو ) اس کی بالکل اجازت نہیں ہے ۔ رہی یہ بات کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صریحا ً اس چھوکری کو منع کیوں نہیں فرمایا تو اس میں یہ نکتہ تھا کہ صریحاً منع کردینے سے حد تحریم کو پہنچ جاتا ۔ اس احتمال کو بھی بعید از قیاس قرار نہیں دیا جاسکتا کہ اس زمانہ میں ضرورت کے تحت جتنی دیر تک دف بجایا جاتا تھا ارجو جواز کے دائرہ میں آتا تھا ، بس اتنے ہی وقت کے برابر تھا جو اس چھوکری کے دف بجانے کی ابتداء سے مجلس نبوی میں حضرت عمر کی آمد کے وقت تک پر مشتمل تھا ، چنانچہ حضرت عمر کی آمد سے پہلے تک اس دف کا بجانا چونکہ جواز کی حد میں تھا اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی دیر تک تو خاموشی اختیار کئے رکھی لیکن جوں ہی وقت جواز کی حد ختم ہوئی اور کراہت کی حدشروع ہوگئی حضرت عمر کی آمد اس چھوکری کے لئے بروقت تنبیہ ثابت ہوئی ۔ کچھ تو اس احساس کے تحت کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حد سے متجاوز ہورہی تھی اور کچھ حضرت عمر کی ہیبت سے اس چھوکری نے گھبرا کر دف کو اپنے کولہوں کے نیچے چھپا لیا ۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عمر ! تم سے تو شیطان بھی اتنا خوفزدہ رہتا ہے کہ جدہر کو تمہارے قدم اٹھے ادھر سے وہ بھاگ کھڑا ہوتا ہے اب اسی وقت شیطان اس لڑکی کو ورغلا رہا تھا اور چاہتا تھا کہ یہ اتنی دیر تک دف بجاتی رہے جس سے اس کا یہ فعل " برائی " کے دائرہ میں داخل ہوجائے مگر تمہارے آتے ہی شیطان بھاگ کھڑا ہوا اور اس چھوکری نے دف بجانا فورا روک دیا ۔
ایک توجیہہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ دراصل حضرت عمر اس مباح چیز کو بھی پسند نہیں کرتے تھے جو برائی کے مشابہ ہو اگر چہ کسی جہت سے اس میں اچھائی ہی کیوں نہ ہو۔ اس کی تائید متعد دروایتوں سے ہوتی ہے جن کو صاحب مرقاۃ نے نقل کیا ہے ۔ پس دف کے مسئلہ میں اگرچہ ضرورت کے تحت جواز کی گنجائش نکلتی ہے اور اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چھوکری کو اجازت دی کہ وہ اپنی نذر پوری کرنے کے لئے دف بجا لے مگر دف بجانا بہر حال ایک ممنوع چیز (باجا بجانے ) کی صورت رکھتا ہے اس لئے حضرت عمر اس کو کیسے گوارا کرلیتے یہی بات جانتے ہوئے اس چھوکری نے حضرت عمر کو آتا دیکھ کر نہ صرف یہ کہ دف بجانا روک دیا بلکہ اس دف کو ان کی نظروں سے چھپا لیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر کی اسی خصوصیت کے پیش نظر مذکورہ الفاظ ارشاد فرمائے ۔

یہ حدیث شیئر کریں