خلافت نبوت ابوبکر وعمر پر منتہی
راوی:
وعن أبي بكرة أن رجلا قال لرسول الله صلى الله عليه و سلم : رأيت كأن ميزانا نزل من السماء فوزنت أنت وأبو بكر فرجحت أنت ووزن أبو بكر وعمر فرجح أبو بكر ووزن عمر وعثمان فرجح عمر ثم رفع الميزان " فاستاء لها رسول الله صلى الله عليه و سلم يعني فساءه ذلك . فقال : " خلافة نبوة ثم يؤتى الله الملك من يشاء " . رواه الترمذي وأبو داود
اور حضرت ابی بکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر ایک شخص نے عرض کیا کہ میں خواب میں دیکھا کہ گویا ایک ترازو آسمان سے اتری اور (اس ترازو میں ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تولا گیا تو آپ کا وزن زیادہ رہا پھر ابوبکر اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تولا گیا تو ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وزن زیادہ رہا اور پھر عمر اور عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو تولا گیا ، تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وزن زیادہ رہا ۔ اس کے بعد ترازو کا اٹھا لیا گیا ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص کے اس خواب سے غمگین ہوگئے ، یعنی اس خواب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رنجیدہ بنادیا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ خلافت نبوت ہے ، اس کے بعد اللہ تعالیٰ جس کو چاہے گا ملک عطا فرما دے گا ۔" (ترمذی )
تشریح :
غمگین ہوگئے " یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خواب کو سن کر یہ تعبیر لی کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے بعد فتنوں کا دور شروع ہوجائے گا، دینی وملی امور میں انتشار واضمحلال آجائے گا اور عالم اسلام کی اس شان وشوکت کو نقصان پہنچانے کی کوششیں اپنا اثر دکھانے لگیں گے جو خلافت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں اپنے عروج پر پہنچ چکی ہوں گی ۔"
" یہ خلافت نبوت ہے " یعنی ابوبکر اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی خلافت ہی حقیقی معنی میں خالص خلافت نبوت کہلانے کی مستحق ہوگی جس میں بادشاہت وملوکیت کی ذرا بھی آمیزش نہیں ہوگی اور ان کی خلافت کا زمانہ ابوبکر وعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما پر کامل ومنتہی ہوگا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد خلافت کا جو دور آئے گا اس میں ملوکیت (بادشاہت ) کی آمیزش در آئے گی ۔ نبوت اور خلافت نبوت کے منہاج کے خلاف کچھ باتیں شامل ہوجائیں گی اور حکومت وملت کے انتظامی ڈھانچے میں بعض بے قاعدگیاں راہ پاجائیں گی، اور پھر خلافت اربعہ کے بعد تو پوری طرح ملوکیت قائم ہوجائے گی جس کو" گزندہ بادشاہت " سے تعبیر کیا جاسکتا ہے ۔ رہی بات کہ " ترازو کے اٹھ جانے" سے مذکورہ تعبیر کس بناء پر سمجھی گئی تو اس کو اس سیاق میں دیکھنا چاہیے کہ ایک دوسرے کے ساتھ انہی چیزوں کو تولا جاتا ہے جو آپس میں ایک دوسرے سے لگ بھگ ہوں ، جو چیز آپس میں بعید ومتبائن (ان میل ) ہوں ان کو ایک دوسرے کے ساتھ تولنا کوئی معنی نہیں رکھتا اس لئے ترازو کا اٹھا لیا جانا اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ تولنے کا سلسلہ موقوف ہوجانا اس بات کی علامت ہوتا ہے کہ جو چیزیں آپس میں ایک دوسرے کے لگ بھگ ہوسکتی ہیں اور جن کا تولا جانا مقصود ہوسکتا ہے وہ ختم ہوچکی ہیں اسی بنیاد پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تعبیر لی کہ یہ خواب ابوبکر اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد امر خلافت میں انحطاط کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔
ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وزن زیادہ رہا سے یہ مطلب نکلا کہ حضرت ابوبکر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے افضل ہیں ، اسی طرح " عمر کا وزن زیادہ رہا " کا یہ مطلب ہوا کہ حضرت عمر حضرت عثمان سے افضل ہیں ۔
خواب دیکھنے والے نے حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا تولا جانا نہیں دیکھا ۔ یہ طرف اشارہ کرتا ہے کہ حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا تفاضل کا مسئلہ سلف کے درمیان مختلف فیہ رہا ہے کہ جیسا کہ بعض کتب کلامیہ مذکور بھی ہے ۔