صحیح بخاری ۔ جلد سوم ۔ ادب کا بیان ۔ حدیث 1029

ترک ملاقات کا بیان اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا کہ کسی شخص کے لئے جائز نہیں ہے کہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ ترک ملاقات کرے ۔

راوی: ابو الیمان , شعیب , زہری , عوف بن مالک بن طفیل بن حارث جو عائشہ

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ حَدَّثَنِي عَوْفُ بْنُ مَالِکِ بْنِ الطُّفَيْلِ هُوَ ابْنُ الْحَارِثِ وَهُوَ ابْنُ أَخِي عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأُمِّهَا أَنَّ عَائِشَةَ حُدِّثَتْ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ قَالَ فِي بَيْعٍ أَوْ عَطَائٍ أَعْطَتْهُ عَائِشَةُ وَاللَّهِ لَتَنْتَهِيَنَّ عَائِشَةُ أَوْ لَأَحْجُرَنَّ عَلَيْهَا فَقَالَتْ أَهُوَ قَالَ هَذَا قَالُوا نَعَمْ قَالَتْ هُوَ لِلَّهِ عَلَيَّ نَذْرٌ أَنْ لَا أُکَلِّمَ ابْنَ الزُّبَيْرِ أَبَدًا فَاسْتَشْفَعَ ابْنُ الزُّبَيْرِ إِلَيْهَا حِينَ طَالَتْ الْهِجْرَةُ فَقَالَتْ لَا وَاللَّهِ لَا أُشَفِّعُ فِيهِ أَبَدًا وَلَا أَتَحَنَّثُ إِلَی نَذْرِي فَلَمَّا طَالَ ذَلِکَ عَلَی ابْنِ الزُّبَيْرِ کَلَّمَ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْأَسْوَدِ بْنِ عَبْدِ يَغُوثَ وَهُمَا مِنْ بَنِي زُهْرَةَ وَقَالَ لَهُمَا أَنْشُدُکُمَا بِاللَّهِ لَمَّا أَدْخَلْتُمَانِي عَلَی عَائِشَةَ فَإِنَّهَا لَا يَحِلُّ لَهَا أَنْ تَنْذِرَ قَطِيعَتِي فَأَقْبَلَ بِهِ الْمِسْوَرُ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ مُشْتَمِلَيْنِ بِأَرْدِيَتِهِمَا حَتَّی اسْتَأْذَنَا عَلَی عَائِشَةَ فَقَالَا السَّلَامُ عَلَيْکِ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَکَاتُهُ أَنَدْخُلُ قَالَتْ عَائِشَةُ ادْخُلُوا قَالُوا کُلُّنَا قَالَتْ نَعَم ادْخُلُوا کُلُّکُمْ وَلَا تَعْلَمُ أَنَّ مَعَهُمَا ابْنَ الزُّبَيْرِ فَلَمَّا دَخَلُوا دَخَلَ ابْنُ الزُّبَيْرِ الْحِجَابَ فَاعْتَنَقَ عَائِشَةَ وَطَفِقَ يُنَاشِدُهَا وَيَبْکِي وَطَفِقَ الْمِسْوَرُ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ يُنَاشِدَانِهَا إِلَّا مَا کَلَّمَتْهُ وَقَبِلَتْ مِنْهُ وَيَقُولَانِ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَی عَمَّا قَدْ عَلِمْتِ مِنْ الْهِجْرَةِ فَإِنَّهُ لَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ فَلَمَّا أَکْثَرُوا عَلَی عَائِشَةَ مِنْ التَّذْکِرَةِ وَالتَّحْرِيجِ طَفِقَتْ تُذَکِّرُهُمَا نَذْرَهَا وَتَبْکِي وَتَقُولُ إِنِّي نَذَرْتُ وَالنَّذْرُ شَدِيدٌ فَلَمْ يَزَالَا بِهَا حَتَّی کَلَّمَتْ ابْنَ الزُّبَيْرِ وَأَعْتَقَتْ فِي نَذْرِهَا ذَلِکَ أَرْبَعِينَ رَقَبَةً وَکَانَتْ تَذْکُرُ نَذْرَهَا بَعْدَ ذَلِکَ فَتَبْکِي حَتَّی تَبُلَّ دُمُوعُهَا خِمَارَهَا

ابو الیمان، شعیب، زہری، عوف بن مالک بن طفیل بن حارث جو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا زوجہ بنی صلی اللہ علیہ وسلم کے برادر زادہ ہیں سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بیان کیا گیا کہ کسی بیع کے متعلق یا عطیہ کے متعلق جو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کسی کو دیا تھا عبداللہ بن زبیر نے کہا کہ قسم ہے اللہ کی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا یا تو اس سے باز آجائیں ورنہ میں ان پر سختی کروں گا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پوچھا کیا واقعی انہوں نے ایسا کہا ہے لوگوں نے کہا ہاں! انہوں نے فرمایا اللہ کے واسطے عہد کرتی ہوں کہ میں ابن زیبر سے کبھی گفتگو نہ کروں گی جب اس جدائی کو بہت عرصہ گزر گیا تو ابن زبیر نے سفارش کرائی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ واللہ میں نہ کسی کی سفارش قبول کروں گی اور نہ میں اپنی قسم توڑوں گی، پھر ابن زبیر پر یہ بات شاق گزری تو مسور بن مخزمہ اور عبدالرحمن بن اسود بن عبد یغوث (جو بنی زہرہ میں سے تھے) گفتگو کی اور ان دونوں سے کہا کہ تم دونوں کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ مجھ کو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس لے چلو، اس لئے کہ ان کے لئے جائز نہ تھا کہ مجھ سے قطع تعلق کے لئے نذر مانتیں۔ مسور اور عبدالرحمن اپنی اپنی چادر اوڑھ کر ابن زیبر کو ساتھ چلے یہاں تک کہ دونوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے داخلہ کی اجازت مانگی دونوں نے کہ السلام علیک ورحمتہ اللہ وبرکاتہ! کہا ہم سب اندر داخل ہوئے تو ابن زبیر پردے کے اندر گھس کر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے لپٹ گئے اور ان کو اللہ کا واسطہ دینے لگے کہ ان سے بات کیجئے اور ان کا عذر قبول کیجئے اور ان دونوں نے کہا کہ آپ جانتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ترک ملاقات سے منع فرمایا ہے کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ اپنے بھائی سے تین رات سے زیادہ ترک ملاقات کرے، جب ان دونوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو سمجھایا اور اصرار کیا تو وہ بھی رو کر سمجھانے لگیں کہ میں نے نذر مانی ہے اور نذر کا معاملہ بہت سخت ہے لیکن یہ دونوں مصر رہے یہاں تک کہ ان سے بلوا کر چھوڑا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس نذر کے کفارے میں چالیس غلام آزاد کئے اس کے بعد جب بھی اپنی نذر کو یاد کرتیں تو روتیں یہاں تک کہ ان کو دوپٹہ آنسوں سے تر ہوجا تا۔

Narrated 'Aisha:
(the wife of the Prophet) that she was told that 'Abdullah bin Az-Zubair (on hearing that she was selling or giving something as a gift) said, "By Allah, if 'Aisha does not give up this, I will declare her incompetent to dispose of her wealth." I said, "Did he ('Abdullah bin Az-Zubair) say so?" They (people) said, "Yes." 'Aisha said, "I vow to Allah that I will never speak to Ibn Az-Zubair." When this desertion lasted long, 'Abdullah bin Az-Zubair sought intercession with her, but she said, "By Allah, I will not accept the intercession of anyone for him, and will not commit a sin by breaking my vow." When this state of affairs was prolonged on Ibn Az-Zubair (he felt it hard on him), he said to Al-Miswar bin Makhrama and 'Abdur-Rahman bin Al-Aswad bin 'Abu Yaghuth, who were from the tribe of Bani Zahra, "I beseech you, by Allah, to let me enter upon 'Aisha, for it is unlawful for her to vow to cut the relation with me." So Al-Miswar and 'Abdur-Rahman, wrapping their sheets around themselves, asked 'Aisha's permission saying, "Peace and Allah's Mercy and Blessings be upon you! Shall we come in?" 'Aisha said, "Come in." They said, "All of us?" She said, "Yes, come in all of you," not knowing that Ibn Az-Zubair was also with them. So when they entered, Ibn Az-Zubair entered the screened place and got hold of 'Aisha and started requesting her to excuse him, and wept. Al-Miswar and 'Abdur Rahman also started requesting her to speak to him and to accept his repentance. They said (to her), "The Prophet forbade what you know of deserting (not speaking to your Muslim Brethren), for it is unlawful for any Muslim not to talk to his brother for more than three nights (days)." So when they increased their reminding her (of the superiority of having good relation with Kith and kin, and of excusing others' sins), and brought her down to a critical situation, she started reminding them, and wept, saying, "I have made a vow, and (the question of) vow is a difficult one." They (Al-Miswar and 'Abdur-Rahman) persisted in their appeal till she spoke with 'Abdullah bin Az-Zubair and she manumitted forty slaves as an expiation for her vow. Later on, whenever she remembered her vow, she used to weep so much that her veil used to become wet with her tears.

یہ حدیث شیئر کریں