مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ حضرت علی بن ابی طالب کے مناقب کا بیان ۔ حدیث 707

کمال قرب وتعلق کا اظہار

راوی:

وعن حبشي بن جنادة قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " علي مني وأنا من علي ولا يؤدي عني إلا أنا وعلي " رواه الترمذي ورواه أحمد عن أبي جنادة

اور حضرت حبشی بن جنادہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں ، میری طرف سے (نبذعہد کی ذمہ داری ) کوئی ادا نہیں کرے علاوہ میرے اور علی کے (ترمذی اور احمد نے اس روایت کو " ابوجنادہ " سے نقل کیا ہے ۔"

تشریح :
کسی معاہدہ کو اس طرح توڑنا کہ فریق ثانی کو پہلے سے مطلع کردیا گیا ہو " نبدعہد " کہلاتا ہے دراصل اہل عرب میں یہ اصول رائج تھا کہ جب دو فریقوں کے درمیان کسی صلح اور مقفیہ باہمی کا وصل قرار ہوتا یا کسی صلح اور معاہدہ کو توڑنا ہوتا تو اس سلسلہ کی ضروری کاروائی اور بات چیت کی ذمہ داری ہر فریق میں سے صرف وہ شخص انجام دیتا ہے جو اپنی قوم وجماعت کا سردار اور سربراہ ہوتا ، یا پھر اس کی عدم موجودگی میں اس کی نیابت صرف وہ شخص کرسکتا تھا جو اس (سردار وسربراہ ) کا قریب ترین عزیزورشتہ دار ہوتا ، اس حدیث کا پس منظر یہ ہے کہ فتح مکہ کے بعد ٩ھ کے حج کے موقع پر بعض اہم دینی وملی مصروفیات کے سبب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حج کے لئے تشریف نہ لے جاسکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جگہ حضرت ابوبکر کو" امیرالحج " بنا کر مکہ روانہ کیا حضرت ابوبکر کی روانگی کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پھر حضرت علی کو مکہ روانہ کیا اور ان کو اپنی طرف سے یہ ذمہ داری سپرد کی کہ وہ حج کے موقعہ پر اس صلح نامہ اور معاہدہ کی منسوخی کے فیصلہ کا اعلان کریں جو تین سال قبل ٦ھ میں حدیبیہ کے مقام پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قریش مکہ کے درمیان عمل میں آیا تھا ، سورت براہ ( سورت توبہ ) مشرکوں کو پڑھ کر سنائیں جس میں اس بات سے متعلق آیتیں نازل ہوئی تھیں ، اور یہ اعلان کردیں کہ مشرک نجس وناپاک ہیں اس کے بعد کوئی مشرک مسجد حرام کے پاس نہ آئے اور اس ضمن میں جو دوسرے احکام وفرامین نازل ہوئے ہیں ان سے سب کو آگاہ کردیں اسی موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ بالا حدیث ارشاد فرمائی جس کا مقصد حضرت علی کی عزت افزائی بھی تھا اور حقیقت میں مذکورہ ذمہ داری حضرت ابوبکر کے سپرد کئے جانے کا عذر بیان کرنا بھی تھا کہ" امیر الحج" ہونے کی حیثیت سے اس سفر حج میں دربار رسالت کانمائندہ اول تو ابوبکر ہیں لیکن عرب میں رائج اصول کی مجبوری کے تحت نقض عہد (معاہدہ کی منسوخی ) کے اعلان کی ذمہ داری علی کے سپرد کی گئی ہے ، اسی لئے حضرت ابوبکر نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اسی وقت وضاحت کرالی تھی جب وہ پیچھے سے آکر ان کے قافلہ میں شامل ہوئے کہ تم " امیر" ہو کر آئے ہویا " مامور " ہو کر حضرت علی نے واضح کیا کہ میں " امیر" ہو کر نہیں آیا ہوں " مامور " ہو کر آیا ہوں ۔ اس واقعہ سے محققین یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ اس میں درحقیقت اس طرف اشارہ تھا کہ علی کی خلافت ابوبکر صدیق کی خلافت کے بعد قائم ہوگی ۔

یہ حدیث شیئر کریں