فاطمہ زہراء کا نکاح
راوی:
وعن بريدة قال : خطب أبي بكر وعمر فاطمة فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إنها صغيرة " ثم خطبها علي فزوجها منه . رواه النسائي
اور حضرت بریدہ کہتے ہیں : حضرت ابوبکر اور حضرت عمر نے فاطمہ سے نکاح کا پیغام دیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہہ دیا کہ وہ کمسن ہے اور پھر جب حضرت علی نے فاطمہ سے اپنے نکاح کا پیغام دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فاطمہ کا نکاح کردیا ۔" (نسائی )
تشریح :
کہہ دیا کہ وہ کمسن ہے " اور ایک روایت میں فسکت کے الفاظ ہیں ، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کا پیغام آنے پر سکوت اختیار فرمایا کوئی جواب نہیں دیا پس ہوسکتا ہے کہ یہ جواب دینے کی صورت دوسری مرتبہ پیغام دینے پر پیش آئی ہو یعنی پہلی مرتبہ کے پیغام پر تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکوت اختیار فرما لیا ہو اور جب انہوں نے دوسری مرتبہ پیغام دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جواب دیا ہو کہ فاطمہ کمسن ہے ۔
" پھر جب حضرت علی نے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ " بعض روایتوں میں آیا ہے کہ ام ایمن نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ فاطمہ کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تم کیوں نہیں درخواست کرکے دیکھتے ، تم تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے بیٹے ہو، تمہاری درخواست قبول ہونے کا زیادہ امکان ہے ۔ حضرت علی نے یہ سن کر جواب دیا : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کہتے ہوئے مجھ کو حجاب آتا ہے پھر کسی ذریعہ سے یہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رضامندی کا اظہار فرمایا اور جب حضرت علی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا مندی معلوم ہوئی تو انہوں نے اپنی درخواست آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ کا نکاح ان سے کر دیا ۔
ایک اور روایت میں جو ابوالخیر قزوینی حاکمی نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نقل کی ہے ۔ حضرت فاطمہ کے نکاح کا واقعہ تفصیل کے ساتھ یوں بیان کیا گیا ہے کہ : پہلے حضرت ابوبکر نے فاطمہ کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جواب دیا کہ اے ابوبکر ! فاطمہ کے بارے میں ابھی تک فیصلہ الٰہی نازل نہیں ہوا پھر حضرت عمر نے اور بعض دوسرے قریش نے یہی درخواست اپنی طرف سے پیش کی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کو وہی جواب دیا جو حضرت ابوبکر کو پہلے دے چکے تھے ، پھر بعد میں کچھ لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ فاطمہ کے لئے اگر تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کرو تو امید ہم کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کا نکاح تمہارے ساتھ کردیں گے ، حضرت علی نے کہا : جب قریش کے معززین حضرات کی یہ درخواست شرف قبولیت نہیں پاسکی تو بھلا میں اپنی درخواست کے بارہ میں کیسے امید رکھوں ۔ آخر کار حضرت علی نے پیغام ڈال دیا اور ان کے پیغام پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میرے بزرگ وبرتر پروردگار نے مجھ کو اس کا حکم دے دیا ہے ۔ حضرت انس آگے بیان کرتے ہیں کہ : چند دنوں کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو طلب کیا اور فرمایا کہ جاؤ اور ابوبکر ، عمر بن الخطاب ، عثمان بن عفان ، عبدالرحمن بن عوف ، سعد بن ابی وقاص ، طلحہ ، زبیر ، اور انصار کے فلاں فلاں کو میرے پاس بلالاؤ ۔ انس کہتے ہیں کہ میں ان سب کو بلا لایا اور یہ حضرات آآ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھ گئے ، اس وقت حضرت علی کہیں کام سے گئے ہوئے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خطبہ پڑھا : الحمد اللہ المحمود بنعمۃ المعبود بقدرتہ المطاع بسلطانہ المرہوب من عذابہ وسطوتہ النفذ امرہ فی سماہ وارضہ الذی خلق الخلق بقدرتہ ومیزہم باحکامہ واعزہم بدینہ واکرمہم بنبیہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان اللہ تبارک وتعالیٰ اسمہ وعظمتہ جعل المصاہرۃ سببا لا حقاوامرامفترضا اوشج بہ الارحام والزمہ للانام فقال عزمن قائل وہو الذی خلق من الماء بشر ا فجعلہ نسبا وصہرا وکان ربک قدیرا وامر اللہ تعالیٰ یجری الی قضاؤہ یجری الی قدرہ لکل قضاء قدرولکل قدر اجل ولکل اجل کتاب یمحو اللہ ما یشاء ویثبت وعندہ ام الکتاب :
پھر فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مجھ کو حکم دیا ہے کہ میں اپنی بیٹی فاطمہ بنت خدیجہ کا نکاح علی بن ابی طالب سے کردوں ، پس تو لوگ گواہ رہو کہ میں نے فاطمہ سے علی کا نکاح چار سو مثقال چاندی پر کردیا ہے اگر علی راضی ہوں ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوہاروں کا ایک طباق منگا کر ہمارے سامنے رکھا اور فرمایا کہ لوٹ لو ، ہم نے وہ چھورہاے لوٹے ابھی ہم ان چھوہاروں کو لوٹ ہی رہے تھے کہ اچانک حضرت علی بھی آکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب بیٹھ گئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو دیکھ کر مسکرائے اور پھر ان کو دیکھ کر فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مجھ کو حکم دیا کہ تمہارے ساتھ فاطمہ کا نکاح چار سومثقال چاندی پر کردوں ، اگر تم راضی ہو، حضرت علی نے جواب دیا ، یقینا میں اس پر راضی ہوں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی :
جمع اللہ شملکما واسعد جدکما وبارک علیکما واخرج منکما کثیرا طیبا ۔
" اللہ تعالیٰ تم دونوں کو دلجمعی اور حسن رفاقت عطا کرے ، تم دونوں کو نصیبہ ور بنائے ، تم دونوں پر برکتیں نازل فرمائے اور تم دونوں کو نہایت پاکیزہ نفس اولاد سے بہرور کرے ۔"
حضرت انس کہتے تھے کہ : اللہ کی قسم (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی دعا کے طفیل ) اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کونہایت پاکیزہ نفس اولاد سم سرفراز کیا ۔