قربت اور بے تکلفی کا خصوصی مقام
راوی:
وعن علي قال : كانت لي منزلة من رسول الله صلى الله عليه و سلم لم تكن لأحد من الخلائق آتيه بأعلى سحر فأقول : السلام عليك يا نبي الله فإن تنحنح انصرفت إلى أهلي وإلا دخلت عليه . رواه النسائي
اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں مجھ کو ایک ایسی قدر ومنزلت حاصل تھی جو خلقت میں کسی کو حاصل نہیں ہوئی ، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں علی الصبح (بالکل اندھیرے منہ ) پہنچ جاتا تھا (پہلے دروازہ پر کھڑے ہو کر طلب اجازت کے لئے ) کہتا : السلام علیک یا نبی اللہ ! اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (میرا سلام سن کر ) کھنگار دیتے تو میں (یہ سمجھ کر کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی مشغولیت میں ہیں اور کوئی شرعی یا عرفی رکاوٹ ایسی ہے جس کے سبب مجھ کو اندر نہیں جانا چاہئے ) اپنے گھر واپس چلا آتا اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ کھنگارتے تو میں (بے تکلف ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلا جاتا د۔" (نسائی )
تشریح :
علماء کے اس قول کے مطابق کہ کسی کے گھر میں داخلے کی اجازت چاہنے کے لئے جو سلام کیا جاتا ہے اس کے جواب میں سلام کرنا صاحب خانہ کے لئے ضروری ہے یہ وضاحت کی جائے گی کہ حضرت علی کا سلام سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پہلے ان کے سلام پر جوابی سلام کرتے اور پھر کھنکارتے تھے ، اور جن علماء کے مطابق صاحب خانہ پر جوابی سلام ضروری نہیں ہے ، ان کے نزدیک اس وضاحت کی ضرورت نہیں پڑے گی ۔
سیدنا علی نے اس روایت کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی جس قربت اور بے تکلفی کا ذکر کیا ہے وہ یقینا انہی کا خصوصی مرتبہ تھا جو ان کے علاوہ اور کسی کو حاصل نہیں تھا کیونکہ وہ حضرت فاطمہ کی نسبت سے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی ہونے کی حیثیت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں بے تکلفا آمد ورفت اور غیر معمولی مخالطت ومجالست کا حق سب سے زیادہ رکھتے تھے،