مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ حضرت علی بن ابی طالب کے مناقب کا بیان ۔ حدیث 731

وہ دعا جو مستجاب ہوئی

راوی:

وعنه قال : كنت شاكيا فمر بي رسول الله صلى الله عليه و سلم وأنا أقول : اللهم إن كان أجلي قد حضر فأرحني وإن كان متأخرا فارفعني وإن كان بلاء فصبرني . فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " كيف قلت ؟ " فأعاد عليه ما قال فضربه برجله وقال : " اللهم عافه – أو اشفه – " شك الراوي قال : فما اشتكيت وجعي بعد . رواه الترمذي وقال : هذا حديث حسن صحيح

اور حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ (ایک مرتبہ ) میں سخت بیمار ہوگیا اور (حسن اتفاق سے ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزررہے تھے جب میں (مرض کی شدت سے بے تاب ہو کر بآوازبلند ) یہ دعا مانگ رہا تھا : الہٰی اگر میری موت کا وقت آپہنچا تو مجھ کو (موت دے کر مرض کی اذیت سے نجات اور ابدی ) سکون عطاء فرما اور اگر ابھی وقت نہیں آیا ہے تو (صحت بحال کر کے مجھ کو راحت وکشادگی (یعنی صحت وتندرستی کی خوشی ) عطا فرما اور اگر یہ بیماری امتحان وآزمائش ہے تو مجھے صبر وآزمائش کو برداشت کی قوت دے (تاکہ میں بے تابی وبے قراری کا اظہار نہ کروں ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (مجھے یوں دعا مانگتے سنا تو ) فرمایا کہ تم کیا دعا مانگ رہے تھے ؟ میں نے دعا کے الفاظ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دوہرادئیے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (دعا کے الفاظ سننے کے بعد ) اپنے پاؤں سے علی کو ٹھوکا دیا اور پھر یوں دعا فرمائی الہٰی ! اس (علی ) کو عافیت عطا فرما " یا یہ فرمایا کہ اس کو شفا بخش" یہ راوی کا اظہار شک ہے حضرت علی کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا کے بعد پھر مجھ کو وہ بیماری کبھی لاحق نہیں ہوئی ، اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔"

تشریح :
فارفغنی ف کے زبر اور غین کم جزم ساتھ منقول ہے جو رفاغۃ سے ہے اور جس کے معنی کشادگی اور فراغت کے ہیں اور ایک صحیح نسخہ میں یہ لفظ عین کے ساتھ فارفغنی منقول ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاؤں سے علی کو ٹھوکا دیا " تاکہ وہ اس معاملہ میں اپنی غفلت پر متنبہ ہوں ، حرف شکایت زبان پر لانے سے باز رہیں پائے مبارک کی ضرب کی برکت سے بہرمند ہوں اور ذات رسالت پناہ کی قدم بقدم کمال متابعت ان کو حاصل ہو۔
" یہ راوی کا شک ہے " یہ جملہ بعد کے کسی راوی کاہے جس نے واضح کیا ہے کہ اس موقع پر پہلے راوی نے اپنا شک ظاہر کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یا تو اللہم عافہ (الہٰی ) اس کو عافیت عطا فرما ، کے ارشاد فرمائے تھے یا اللہم اشعفہ الہٰی ! اس کو شفا بخش ) کے الفاظ ، بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا میں یہ تعلیم اور تلقین پوشیدہ ہے کہ مریض کو بس یہ دعا مانگنی چاہئے کہ اے اللہ ! مجھ کو عافیت عطا فرما یا اے اللہ !مجھ کو شفا بخش دعا میں " تردید " کا پہلو اعتبار کرنا یعنی یوں کہنا کہ یا یہ کریا وہ کر ، جیسا کہ حضرت علی کی دعا تھی غیر مناسب بات ہے کیونکہ تردید کا پہلو ایک طرح سے جبر اور دباؤ کا مفہوم ظاہر کرتا ہے جب کہ اللہ تعالیٰ پر جبر کرنے اور دباؤ ڈالنے والا کوئی نہیں ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں