ناتہ کی میراث نے اقرار کی میراث کو موقوف کردیا
راوی: احمد بن محمد , علی بن حسین , ان کے والد , یزید نحوی , عکرمہ , عبداللہ بن عباس
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ ثَابِتٍ حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ يَزِيدَ النَّحْوِيِّ عَنْ عِکْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ وَالَّذِينَ عَاقَدَتْ أَيْمَانُکُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ کَانَ الرَّجُلُ يُحَالِفُ الرَّجُلَ لَيْسَ بَيْنَهُمَا نَسَبٌ فَيَرِثُ أَحَدُهُمَا الْآخَرَ فَنَسَخَ ذَلِکَ الْأَنْفَالُ فَقَالَ تَعَالَی وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَی بِبَعْضٍ
احمد بن محمد، علی بن حسین، ان کے والد، یزید نحوی، عکرمہ، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ (اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے) جن لوگوں سے تم نے قسمیں کھائی ہیں ان کو ان کا حصہ دو۔ پہلے زمانہ میں (اسلام کے ابتدائی دور میں) یہ دستور تھا کہ اگر کوئی شخص ایسے شخص سے قسم کھا لیتا جس سے اس کی قرابت داری نہ ہوتی تو وہ اس قسم کی بنا پر ایک دوسرے کے وارث قرار پاتے پھر بعد میں سورت انفال کی اس آیت ( وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ) 33۔ الاحزاب : 6) سے یہ دستور منسوخ ہو گیا۔ (اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ قرابت والے ایک دوسرے کے مال کے حقدار ہیں)