حضرت ابوعبیدہ کی فضیلت
راوی:
وعن ابن أبي مليكة قال : سمعت عائشة وسئلت : من كان رسول الله صلى الله عليه و سلم مستخلفا لو استخلفه ؟ قالت : أبو بكر . فقيل : ثم من بعد أبي بكر ؟ قالت : عمر . قيل : من بعد عمر ؟ قالت : أبو عبيدة بن الجراح . رواه مسلم
اور حضرت ابن ابی ملیکہ (تابعی ) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس وقت سنا جب ان سے پوچھا گیا کہ (فرض کیجئے ) اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خلافت کے لئے (صراحتہ ) کسی کو نامزد فرماتے تو آپ کی نگاہ انتخاب کس پر جاتی ؟ حضرت عائشہ نے جواب دیا : حضرت ابوبکر پر! پھر ان سے پوچھا گیا : حضرت ابوبکر کے بعد کس کو نامزد فرماتے ؟ حضرت عائشہ نے جواب دیا : عمر کو پھر پوچھا گیا اور حضرت عمر کے بعد کس کا نمبرآتا ؟ حضرت عائشہ بولیں : ابوعبیدہ بن الجراح کا ۔" (مسلم )
تشریح :
ابوعبیدہ چونکہ " امین الامت " تھے اور منصب کی ذمہ داریاں سنبھالنے کی اہلیت ولیاقت رکھتے تھے اس لئے ان کا مستحقین خلافت میں شمار ہونا عین موزوں تھا چنانچہ وصال نبوی کے بعد جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین اور خلیفہ کے انتخاب کا مرحلہ درپیش تھا حضرت ابوبکر نے فرمایا تھا کہ !بار خلافت اٹھانے کے لئے مجھے آگے کیوں کرتے ہو تمہارے درمیان یہ عمر ہیں علی ہیں یہ ابوعبیدہ بن الجراح ہیں ان میں سے جس کو چاہو خلیفہ منتخب کرلو لیکن حل وعقد اور عمائدین ملت کا کہنا تھا کہ آپ سے زیادہ اہل ولائق اور کون ہوسکتا ہے ، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض الموت میں ہماری دینی قیادت (یعنی نماز کی امامت کے لئے ) آپ ہی کو آگے کیا تھا تو پھر کس کی مجال ہے کہ ہماری دنیاوی وملی قیادت کے لئے آپ کو ترجیح نہ دے بہر حال اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ اس نظریہ کی حامل تھیں کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے بعد باقی اصحاب شوریٰ میں حضرت ابوعبیدہ بن الجراح ہی خلافت کے سب سے زیادہ اہل اور مستحق تھے ۔