مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ عشرہ مبشرہ کے مناقب کا بیان ۔ حدیث 750

چند صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ، کی خصوصی حیثیتوں کا ذکر

راوی:

وعن أنس أن النبي صلى الله عليه و سلم قال : " أرحم أمتي بأمتي أبو بكر وأشدهم في أمر الله عمر وأصدقهم حياء عثمان وأفرضهم زيد بن ثابت وأقرؤهم أبي بن كعب وأعلمهم بالحلال والحرام معاذ بن جبل ولكل أمة أمين وأمين هذه الأمة أبو عبيدة بن الجراح " رواه أحمد والترمذي وقال : هذا حديث حسن صحيح وروى معمر عن قتادة مرسلا وفيه : " وأقضاهم علي "

اور حضرت انس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میری امت میں ابوبکر ہی میری امت کے لوگوں کے حق میں سب سے زیادہ مہربان اور سب سے بڑے درد مند ہیں (کہ وہ نہایت لطف ومہربانی اور درد مندی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتے ہیں اور ان کو فلاح ونجات کے راستہ پر لگاتے ہیں ) اور میری امت کے لوگوں میں عمر اللہ کے دین کے معاملات میں سب سے زیادہ سخت ہیں (کہ نہایت سختی اور مضبوطی کے ساتھ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتے ہیں ) اور میری امت کے لوگوں میں عثمان سب سے سچے حیادار ہیں ، اور میری امت کے لوگوں میں سب سے بڑے فرائض داں زید بن ثابت ہیں اور میری امت کے لوگوں میں سب سے زیادہ قرآن پڑھنے والے اور سب سے بڑے ماہر تجوید قرآن ابی ابن کعب ہیں ، اور میری امت میں حلال وحرام کو سب سے زیادہ جاننے والے معاذ بن جبل ہیں اور ہرامت میں ایک امین ہوتا ہے اور اس امت کے امین عبیدہ بن الجراح ہیں ۔ (احمد وترمذی ) اور ترمذی نے کہا ہے کہ حدیث حسن صحیح ہے اور اس حدیث کو معمر نے بھی قتادہ سے بطریق ارسال نقل کیا ہے اور (معمر کی ) اس روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ : میری امت کے لوگوں میں حق کے مطابق سب سے اچھا فیصلہ کرنے والے علی ہیں ۔"

تشریح :
۔ ۔ ۔ ۔ عثمان سب سے سچے حیادار ہیں ۔ حیاء کا وصف ، کہ جو ایمان کی ایک بڑی شاخ ہے ۔ حضرت عثمان کے ساتھ ایک طرح کی خصوصی اور امتیازی نسبت رکھتا ہے تھا اور ان کی حیاداری اور غیرت مندی کو مثالی حیثیت حاصل تھی رہی یہ بات کہ " سچی حیاداری " سے کیا مراد ہے تو اس میں دراصل اس نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ بسا اوقات حیاء اور غیرت کا اظہار طبعی تقاضہ کے تحت ایسے موقع پر بھی ہوتا ہے جو شرعی نکتہ نظر سے حیاء اور غیرت کا تقاضا نہیں کرتا پس حضرت عثمان اسی سچی اور معتبر حیاء کے حامل تھے ۔"
" ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سب سے بڑے فرائض داں زید بن ثابت ہیں ۔" یعنی فرائض اور میراث کا علم فنی اور تحقیقی مضبوطی کے ساتھ زید بن ثابت میں بہت زیادہ ہے بلاشبہ حضرت زید بن ثابت بڑے فقہا، صحابہ میں سے تھے اور علم فرائض کے ماہر سمجھے جاتے تھے کاتب وحی ہونے کا شرف بھی ان کو حاصل تھا اور انہوں نے حضرت ابوبکر اور پھر حضرت عثمان کے زمانہ خلافت میں قرآن کو لکھنے اور جمع کرنے کی خدمت بڑی خوبی کے ساتھ انجام دی ۔
" ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سب سے بڑے ماہر تجوید قرآن ابی بن کعب ہیں ۔" حضرت ابی بن کعب انصاری خزرجی ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک کاتب وحی بھی تھے جن چھ صحابہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں پورا قرآن کریم حفظ کیا تھا ان میں سے ایک یہ بھی ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ان کو " سید القراء " کہا جاتا تھا اور خود سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو " سید الانصار کا لقب دیا تھا ۔ حضرت عمر فاروق " سید المسلمین " کے لقب سے پکارتے تھے ۔ روایتوں میں آتا ہے کہ جب سورت نازل ہوئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابی بن کعب سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ یہ سورت تمہارے سامنے پڑھوں اور تمہیں سناوں ۔ ابی نے پوچھا : کیا اللہ تعالیٰ نے میرا نام لیا ہے ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں اللہ نے تمہارا نام لیا ہے ۔ یہ سن کر ابی رونے لگے اور ان کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی رو دئیے ۔ ان کی وفات ١٩ھ میں مدینہ میں ہوئی ۔ ایک بہت بڑی جماعت کو ان سے روایت حدیث کا شرف حاصل ہے ۔
حلال وحرام کو سب سے زیادہ جاننے والے معاذ بن جبل انصار میں سے ہیں اور ان ستر خوش نصیبوں میں سے ایک ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت مدینہ سے پہلے مکہ آئے تھے اور بیعت عقبہ ثانیہ میں شریک تھے ، مدینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین اور انصار کے درمیان جو عام بھائی چارہ کرایا تھا اس کے تحت حضرت معاذ بن جبل کا بھائی چارہ حضرت عبداللہ بن مسعود سے یا ایک روایت کے مطابق حضرت جعفر بن ابی طالب سے قائم ہوا تھا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو قاضی اور معلم بنا کر یمن بھیجا تھا اس وقت آپ کی عمر اٹھارہ سال کی تھی طاعون عمو اس میں بعمر اڑتیس سال ١٨ھ میں آپ نے انتقال کیا ، انتقال کے وقت آپ بار بار کہتے تھے : الہٰی !یہ (سخت ترین طاعون بعض اعتبار سے ) درحقیقت تیرے بندوں پر تیری رحمت ہے الہٰی !معاذ اور معاذ کے اہل وعیال کو اس رحمت سے محروم نہ رکھ ۔ بعض روایتوں میں آیا ہے کہ دم رخصت حضرت معاذ کی زبان پر کچھ اس طرح کے الفاظ تھے : الہٰی ! موت کی سختی کم کردے جتنا تو چاہے قسم ہے تیری عزت کی تو خوب جانتا ہے کہ میں تجھ کو دوست رکھتا ہوں ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ ہم معاذ بن جبل کو اس آیت (اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِيْفًا) 16۔ النحل : 120) ۔ کے مضمون میں حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے ساتھ تشبیہ دیا کرتے تھے حضرت معاذ بن جبل کی علمی فضیلت وبزرگی کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں فتویٰ دینے کی اہم ذمہ داری آپ کے سپرد تھی اور حضرت ابوبکر کے عہد خلافت میں بھی ۔ جب معلم وقاضی ہو کر یمن چلے گئے تو حضرت عمر فاروق فرمایا کرتے تھے : معاذ نے یمن جا کر اہل مدینہ میں فقہ کا خلاء پیدا کردیا ہے حضرت معاذ جنگ بدر میں بھی شریک تھے اور دوسری جنگوں میں بھی مجاہدین اسلام کے دوش بدوش رہے ۔ منقول ہے کہ رحلت کے وقت آپ کے ساتھی رونے لگے تو ان سے پوچھا : تم لوگ کیوں رو رہے ہو ؟ ان سب نے کہا کہ ہم علم کو رو رہے ہیں جو آپ کی موت کے سبب منقطع ہوا چاہتا ہے ، حضرت معاذ نے کہا : علم اور ایمان لازوال ہیں قیامت تک باقی رہنے والے ہیں ، حق جس سے بھی ملے حاصل کرو باطل پر جو بھی اس کی تردید ومخالفت کرو۔
" اس امت کے امین ابوعبیدہ بن الجراح ہیں ۔ حضرت عبیدہ بن الجراح نے اللہ اور اللہ کے رسول کی محبت کا سب سے بڑا کامیاب امتحان اپنے باپ کو اپنے ہاتھوں سے موت کے گھاٹ اتار کر دیا جو دشمنان اسلام کی طرف سے اہل اسلام کے خلاف میدان جنگ میں آیا تھا جنگ احد میں پامردی اور ثابت قدمی کے ساتھ میدان کارزار میں ڈٹے رہے اور ذات رسالتماب صلی اللہ علیہ وسلم کو دشمن کے حملوں سے بچانے میں فدا کاری کے جوہر دکھائے ۔خلافت صدیقی میں آپ بیت المال کے مہتمم اور افسر اعلی تھے حضرت عمر فاروق نے آپ کو حضرت خالد بن ولید کی جگہ اسلامی فوج کا سپہ سالار اعظم مقرر کیا اور شام وفلسطین کی اکثر فتوحات آپ ہی کے زیر کمان حاصل ہوئیں ۔ حضرت عمر نے اپنی وفات کے دن فرمایا تھا : اگر آج ابوعبیدہ زندہ ہوتے تو اس معاملہ (یعنی خلافت) کی زمام کار (یا یہ کہ انتخاب خلیفہ کے لئے مشاورت کا انتظام واختیار ) میں انہی کو سونپ جاتا ۔ حضرت ابوعبیدہ زہد وقناعت کے جس درجہ کمال کے حامل تھے ان کا اندازہ اس روایت سے کیا جاسکتا ہے جو بعض مستند کتابوں میں عروہ بن زبیر سے منقول ہے کہ جب امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق شام وفلسطین کے دورہ پر آئے تو اس خطہ کے مختلف علاقوں میں تعینات اسلامی افواج کے کمانڈر اور بڑے بڑے عمال وحکام امیر المؤمنین کے استقبال کے لئے موجود تھے حضرت ابوعبیدہ بن الجراح جو شام وفلسطین میں اسلامی افواج کے سپہ سالار اعظم تھے ، اس وقت تک وہاں نہیں پہنچے تھے ، حضرت عمر نے استقبال کرنے والے امراء اور عمائدین سے پوچھا کہ میرا بھائی کہاں ہے ؟ لوگوں نے پوچھا : کون آپ کا بھائی ؟ فاروق اعظم نے فرمایا : ابوعبیدہ بن الجراح !لوگوں نے کہا وہ آتے ہی ہوں گے ۔ جب ابوعبیدہ آگئے تو امیرالمؤمنین سواری سے اترے اور ان کو گلے لگایا ، پھر ان کے گھر گئے ، انہوں نے سپہ سالاراعظم ابوعبیدہ کے گھر میں پہنچ کر دیکھا تو وہاں ان کو ایک چھوٹی سی تلوار ، ایک سپر کے علاوہ اور کوئی سامان نظر نہ آیا ۔ ایک روایت میں یوں ہے کہ : امیر المؤمنین نے حضرت ابوعبیدہ سے کہا کہ چلو ہمیں اپنے گھر لے چلو اور پھر امیر المؤمنین حضرت ابوعبیدہ کے گھر آئے اور اندر پہنچ کر دیکھا تو پورا مکان خالی نظر آیا کہیں کوئی چیز دکھائی نہیں دے رہی تھی ۔ امیر المؤمنین حیرت سے پوچھا : ابوعبیدہ ! تمہارے سامان کہاں ہے ، یہاں تو ایک نمدہ ، ایک رکابی اور ایک تلوار کے علاوہ کچھ بھی نظر نہیں آرہا ہے حالانکہ تم تو اس علاقہ کے حاکم اعلی اور اسلامی افواج کے سپہ سالاراعظم ہو ، کیا تمہارے پاس کچھ کھانے کو بھی ہے یا نہیں ؟ حضرت ابوعبیدہ یہ سن کر گھر کے ایک کونے میں گئے اور وہاں سے روٹی کے چند خشک ٹکڑے اٹھا کر لائے ، فاروق اعظم نے یہ دیکھا تو بے اختیار رونے لگے اور بولے : ابوعبیدہ !بس تم ہی ایک مرد افگن نکلے ، باقی ہم سب کو تو دنیا نے اپنے فریب کا شکار بنا لیا ۔"
" ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حق کے مطابق سب سے اچھا فیصلہ کرنے والے حضرت علی ہیں ،" بلاشبہ حضرت علی اس امت کے سب سے بڑے قاضی ہیں ، قضایا نمٹانے اور حق بجانب فیصلہ کرنے میں کوئی ان کا ثانی نہیں تھا اسی لئے حضرت عمر ان کے مشورہ اور ان کے فتوے کے بغیر کوئی حکم اور فیصلہ صادر نہیں کرتے تھے ، اگر حضرت علی موجود نہ ہوتے تو ان کے آنے تک فیصلہ کی کاروائی ملتوی رکھتے تھے ۔ بہرحال حدیث کے الفاظ " اقضاہم " کے بظاہر یہی معنی ہیں کہ : " علی فیصلہ طلب مقدموں اور قضیوں کے شرعی اور عدالتی احکام وقوانین سب سے زیادہ جانتے ہیں اور سب سے اچھا فیصلہ دیتے ہیں تاہم اس سے حضرت عمر اور حضرت عمر پر حضرت علی کی افضلیت ثابت نہیں ہوتی کیونکہ حضرت علی کی جزئی فضیلت ہے اور جزئی فضیلت کلی فضیلت کے منافی نہیں ہوتی ، جبکہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی شان میں جو نصوص موجود ہیں ان سے علی الترتیب ان دونوں حضرات کا تمام امت سے افضل ہونا ثابت ہے ۔ حضرت ابوبکر کی افضلیت کی ایک صریح دلیل تو ایک یہی آیت ہے (لَا يَسْتَوِيْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقٰتَلَ اُولٰ ى ِكَ اَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِيْنَ اَنْفَقُوْا مِنْ بَعْدُ وَقٰتَلُوْا) 57۔ الحدید : 10) یہ آیت خاص حضرت ابوبکر ہی کے حق میں نازل ہوئی ہے کیونکہ صرف انہوں نے ہی فتح مکہ سے پہلے اپنا مال جہاد میں لگا یا تھا ۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کوئی مسلمان ان کے برابر نہیں ہوسکتا ، اس میں بھی کوئی شبہ کہ اس بارے میں حدیثیں متعارض اور دلیلیں متناقض ہیں اور روایت ودلائل کا یہ تعارض وتناقض اس بات کا متقضی ہے کہ اس نکتہ کو تسلیم کیا جائے جس پر جمہور صحابہ نے اتفاق کیا ہو۔ پس جس نکتہ پر جمہور صحابہ نے اتفاق کیا ہے وہ وہی ہے جس پر اہل سنت والجماعت کا اجماع ہے یعنی یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اجر وثواب کی کثرت کے اعتبار سے حضرت ابوبکر افضل ہیں پھر حضرت عمر ، پھر حضرت عثمان ، اور پھر حضرت علی ۔

یہ حدیث شیئر کریں